
یہ ایک سادہ اور واضح بات ہے کہ زیادہ تر کفار خلافت یا اسلامی قوم (یا اصلاََ کسی بھی قسم کے مذہبی حکمرانی نظام) کے تصور ہی سے بالکل نفرت کرتے ہیں۔ وہ اس دنیا کی عارضی لذتوں سے پوری طرح مسحور ہیں جس کی وجہ سے وہ اس بڑی تصویر کو دیکھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح ایک بے خدا، سیکولر، مادیت پرستی کے نظام میں زندگی بسر کرنا ان کو اپنی بتدریج تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
تاہم، حقیقت میں حیران کن بات یہ ہے کہ بہت سے مسلمان بھی خلافت کے تصور کے محض ذکر ہی پر شدید ہیجانی اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ مذکورہ تباہ کن سیکولر نظام کے تحت زندگی گزارنے پر قناعت کر چکے ہیں۔
اس لیے ہم خلافت کے تصور کے خلاف چند عام "اسلامی” اعتراضات پر روشنی ڈالیں گے اور ان کے مختصر جوابات بھی فراہم کریں گے۔
متعلقہ: کیا خلافت کی واپسی کی خواہش بےمحل خیال پرستی ہے؟
پہلا اعتراض: "ہمیں سب سے پہلے اپنے عقائد کو درست کرنے کی ضرورت ہے”۔
جو نکتہ بعض مسلمان پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے مسلمانوں کا عقیدہ غلط ہے، اس لیے ہمیں خلافت کے بارے میں سوچنے سے پہلے ان مسلمانوں کا عقیدہ درست کرنا ہوگا۔ آخر کسی بھی قسم کی حقیقی اور بامعنی فتح کے لیے، کیا صحیح عقیدہ ضروری نہیں ہے؟
ظاہر ہے کہ صحیح اسلامی عقائد کو اپنانا اور برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کرتے تاہم، ہم حقیقتاً تمام لوگوں کے عقائد کی درستگی کی توقع نہیں کر سکتے جب عوام کے لیے صحیح اسلامی عقائد کی تشکیل کے لیے کوئی اسلامی ریاست موجود نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک لوگ آزاد ہیں کہ وہ جس منحرف اور گمراہ نظریہ اور عقیدہ کے نظام کو چاہیں یا جس سے بھی متاثر ہوں اس پر عمل پیرا ہوں۔
آخر یہ ایک سیکولر دنیا ہے۔ جب تک آپ کو صاحب اقتدار حکام اور مروجہ نظام کے لیے خطرہ نہیں سمجھا جاتا، آپ جس پر چاہیں یقین کر سکتے ہیں۔ سیکولر حکمرانی کے تحت، منحرف اور گمراہ کن عقائد جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتے ہیں اور روایتی عقائد کو غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اور ان کو ناقابلِ پہچان حد تک مسخ کردیا جاتا ہے۔ ذرا دیکھیں کہ بہت سارے داعیوں کے ساتھ کیا ہوا ہے جو پہلے روایتی تھے لیکن لبرل اقدار کو دریافت کرنے کے بعد "روشن خیال” بن گئے۔ جدت پسند مسلمانوں اور مغرب کے اندر مسلم برادری پر ان کے اثرات پر غور کریں۔ سوچئے کہ کتنے گمراہ اور گمراہ کرنے والے "امام” اور "علماء” دنیا بھر میں اس حد تک مقبول ہو چکے ہیں کہ دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
مندرجہ بالا سب سے بھی زیادہ اہم یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ صحیح عقائد کو حقیقت میں غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ سیکولر نظام کے تحت سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ فرانس میں، ائمہ کو محض صنفی کردار اور عفت سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دینے پر جیل بھیج دیا گیا یا جلاوطن کر دیا گیا۔ زیادہ تر مغربی ممالک میں، آپ کو مخصوص عقیدہ کے مسائل کے بارے میں بات کرنے کی وجہ سے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں دجال کے بارے میں عقائد جیسی چیزیں شامل ہیں (ذرا مجھے یاد کروایں دجال کے ساتھ کون اتحاد کرے گا؟)؛ مخصوص جنگوں کے بارے میں پیشین گوئیاں جن میں مسلمان لڑیں گے (مجھے بتائیں کہ کون بھاگے گا اور درختوں اور پتھروں کے پیچھے چھپے گا؟) آخرت میں شہید کا درجہ؛ جہنم کے باشندوں کی اکثریت کی جنس؛ بہت سے انبیاء کے قصے جیسے حضرت لوط علیہ السلام؛ اور یہ فہرست جاری ہے۔
اگر پورا نظام آپ کے عقیدے کے اُن پہلوؤں کو کالعدم قرار دینے کے لیے بنایا گیا ہو جو اس کے نزدیک قابل اعتراض ہوں تو آپ کا عقیدہ کیسے درست ہو سکتا ہے؟ یہ صرف وقت کی بات ہے جہاں عقائد کے وہ حصے جو آج قابل اعتراض نہیں سمجھے جاتے کل سیکولر نظام کے لیے سوفیصد قابل اعتراض ہوں گے، اس طرح مسلمانوں کے عقیدے کو مزید منحرف کیا جائے گا۔
عقیدے کو مسخ کرنے کے ایسے تباہ کن رجحانات پر قابو پانے اور روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ، بلاشبہ خلافت کی حفاظتی ڈھال ہے۔
متعلقہ: خلافت کی منطقی ضرورت
دوسرا اعتراض: "ہمیں اپنے اعمال پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے”۔
کچھ مسلمان اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں اپنے اعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ یہاں دعویٰ ہے کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم صحیح طریقے سے نماز پڑھ رہے ہیں، روزے رکھ رہے ہیں،اور صحیح طریقے سے وضو اور غسل وغیرہ کر رہے ہیں، اور تب ہی جب ہم اپنے تمام اعمال پختہ کر لیں گے تو ہمیں خلافت عطا کی جائے گی۔
وضاحت کے لیے ایک بار پھر، ہمیں اسلام میں اعمال صالحہ کی عظیم اہمیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ وہی ہے جو پہلے تھا۔ جن اعمال کو بحیثیت مسلمان ہم اچھے جانتے ہیں وہ کافرانہ دجالی سیکولر نظام کے لیے اچھے نہیں سمجھے جا سکتے۔ اس سے ہماری ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور ہمارے اعمال کو انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو جائے گا۔ بعض صورتوں میں یہ ممکنہ طور پر ہمارے لیے ان پر عمل کرنا بھی ناممکن بنا سکتا ہے۔ ایک سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی مثال کم عمری کی شادی کی ہے، جس کی ترغیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ کم عمری کی شادی ایک ایسی چیز ہے جس پر مشرقی مسلمانوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر مسلم ممالک میں ایسی شادیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں مغرب زدہ مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر اس رواج کو یکسر ترک کر دیا ہے۔
یہاں تک کہ غسل خا نہ استعمال کرنے کے بعد اپنے آپ کو دھونے جیسی آسان چیز (استنجا) کو سیکولر اداروں نے مشتبہ سمجھا ہوا ہے۔
قرآن بے شمار امتناعی ہدایات اور احکام سے بھرا ہوا ہے جن پر خلافت کے بغیر جامع طور پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ جب آپ سیکولر نظام کے ہر پہلو سے مسلسل حملے کی زد میں ہیں تو آپ ایک صحت مند شادی کو کامیابی سے کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟ آپ صالح بچوں کی پرورش کیسے انجام دے سکتے ہیں جب میڈیا کے ہر شعبے اور یہاں تک کہ لازمی تعلیمی نظام کا مقصد انہیں بے خدا مرتد ہم جنس پرستوں (یا دیگر ایل۔جی۔بی۔ٹی زمروں میں سے کسی) میں تبدیل کرنا ہے؟ آپ کسی بھی حد کو کیسے نافذ کریں گے، جن کا نفاذ یقیناً اللہ کے نزدیک بہت اچھا ہے لیکن ایک سیکولر معاشرہ اسے "غیر انسانی” اور "قدامت پرستی” تصور کرتا ہے؟ آپ حلال رزق کیسے کمائیں گے جب سود سے بچنا انتہائی مشکل ہے اور جب آپ کی کمائی پر ٹیکس لگایا جاتا ہے جسے بے گناہوں کو ذبح کرنے اور پوری دنیا میں ہر قسم کے فواحش (مظالم) کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ یہاں تک کہ مختلف اسلامی اعمال جو عام طور پر سیکولر نظاموں کے ذریعہ قابل قبول سمجھے جاتے ہیں (جیسے نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت) مختلف سیکولر اقوام کے ذریعہ غیر قانونی اور قابل سزا قرار دیے جا سکتے ہیں اور قرار دیےگئے ہیں۔
اسلام کی طرف سے مطلوب نیک اعمال کو قائم کرنے اور اسلامی نظام کے بغیر مستقل طور پر برے کاموں میں پڑنے سے دور رہنے کا کوئی طریقہ نہیں۔
اسلام کی طرف سے مطلوب نیک اعمال کو قائم کرنے اور مسلسل برائیوں میں پڑنے سے بچنے کا سب سے مؤثر طریقہ، بلا شبہ خلافت کی حفاظتی ڈھال ہے۔
متعلقہ: سیاسی شیعت کی ناگزیر ناکامی: ایران کی سیکولرائزیشن
تیسرا اعتراض: "فلاں گروہ خلافت کا مطالبہ کر رہا ہے اور دیکھو وہ کس قدر گڑبڑ کر رہے ہیں!”۔
مجھے واقعی یقین نہیں آرہا کہ اس بات کو ایک دلیل کے طور پر کیسے استعمال کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ہے، صحابہ کے زمانے میں اصل خوارج قرآن کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے تھے۔ اس اعتراض کے پس پردہ لغو منطق کو دیکھتے ہوئے ہمیں قرآن کی تلاوت کو بھی ترک کر دینا چاہیے کیونکہ ایک منحرف گروہ اس عمل کے لیے مشہور تھا۔
خلافت کا قیام اور اللہ کے قوانین کے مطابق حکومت کرنا اسلام کا حصہ ہے۔ قرآن میں بلاواسطہ اور بالواسطہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو فرمائی ہے۔ لاتعداد روایتی اور عصری ’’علماء‘‘ نے اس کی اہمیت بیان کی ہے۔ 1924 میں جب خلافت کا خاتمہ ہوا تو بہت سے علماء نے اس کے امت پر پڑنے والے شدید نقصان دہ اثرات کو جانا اور انہوں نے اس کے دوبارہ قیام کے لیے بہت کوشش کی۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ماراگیا، قید کیا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔ یہ واقعی ہمارے لیے افسوسناک ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اب اپنی عارضی انفرادی آسائشوں کی خاطر خلافت کے تصور سے بھاگنے کے بہانے بناتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں خلافت کے کھونے کا ایک برا اثر ہے اور اس کی عظیم اہمیت کو قائم کرنے کی طرف ایک بہت مضبوط ثبوت ہے۔
متعلقہ: سُنی مسلمان کب متحد ہوں گے؟