جاوید احمد غامدی کا گھناؤنا انحراف

اردو مضمون پر مبنی اس تحریر کو ایک نامعلوم مصنف نے ترتیب دیا ہے ۔ کچھ ترمیمات کو پڑھنے میں آسانی اور وضاحت کے لیے کیا گیا ہے ۔

شرعی حجاب کا انکار

۔ عورتوں کے لئے سر کا ڈھانپنا پردہ کا حصہ نہیں، ننگے سر صرف چھاتی کو ڈھانپ لیا جائے تو پردہ کا شرعی حکم پورا ہو جاتا ہے۔ یہ غامدی صاحب کا وہ تفرد ہے جس میں ۱۴۰۰ سالوں میں کوئی ایک شخص بھی انکا ہمنوا نہیں ہے۔ گویا ۱۴۰۰ سالوں سے مسلم خواتین جو سروں کو ڈھانپتے آرہی ہیں وہ بدعت ہے۔

خواتین کے لیے سر پر خمار لینا پردے کا حصہ نہیں ہے۔ شریعت میں سینہ لپیٹ لینا پردے کی شرط کو مکمل کر دیتا ہے۔ 1400 سالوں سے کسی نےغامدی کی پیشن گوئی کی تائید نہیں کی۔ [of Islamic Scholarship] چناچہ پچھلے 1400 سالوں سے سر ڈھانپنے والی عورتیں کسی بدعت میں مصروف تھیں۔ [he believes]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ اٹھانا اور اُن کی واپسی کے متعلق اسلامی عقائد کا انکار ۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)

عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ۔ میزان، حصہ 1، صفحہ 22، 23، 24، 1985 ایڈیشن)

۔ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدہ کا انکار۔ غامدی صاحب کا یہ تفرد ابن تیمیہ کی بعض مبہم تحریروں سے مستعار لیا ہوا ہے جبکہ جمہور امت میں اس عقیدہ کو ۱۴۰۰ سالوں سے تواتر نظری حاصل ہے۔

وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے عقیدے کا بھی انکار کرتا ہے۔

نوٹ: غامدی نے ابنِ تیمیہ کی کچھ غیر واضح تحریروں سے یہ عجیب اور گمراہ کن رائے نکالی ہے ۔ پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سےبڑے پیمانے پر امت کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یہ عقیدہ تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے ۔ (اس قدر بڑے پیمانےپر نسل در نسل منتقل ہوا کہ اس کا من گھڑت ہونا نا ممکن ہے)

زنا کی حد کی سزا کا انکار

۔ شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا کا انکار۔ اس معاملہ میں غامدی صاحب کو خیر القرون اور قدیم فقہاء میں سے کو ئی ہمنوا نہیں مل سکا۔ البتہ اس معاملہ میں خوارج اور چند معتزلہ آپ کے ساتھ ہیں۔

شادی شدہ زانی/زانیہ کو سنگسار کرنے کی سزا کا انکار ۔ اس معاملے میں، غامدی کو خیر القرون (مسلمانوں کی بہترین نسلیں) کی طرف سے کوئی حمایت حاصل نہیں ہے، اور ابتدائی فقہاء میں سے یہ نظریہ کسی نے نہیں رکھا۔ البتہ خوارج اور معتزلہ نے اس نظریے پریقین کیا۔[heretical]

متعلقہ: جاوید غامدی: ایک نمایاں منکر حدیث کا تعارف

دو عورتوں کی گواہی کا ایک مرد کے برابر ہونے کا انکار

۔ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہونے کا انکار۔ اس معاملہ میں بھی قدیم فقہاء میں سے کوئی غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں ہے۔ فقہاء کے مابین زیادہ سے زیادہ یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اموال دیون کے معاملات کے علاوہ بھی عورتوں کی گواہی قابل قبول ہے یا نہیں۔ ابن حزم وغیرہ اس کے قائل ہیں جبکہ جمہور نے انکار کیا ہے

نوٹ: ابتدائی فقہاء میں سے یہاں بھی کوئی غامدی کے ساتھ متفق نہیں ہے ۔ فقہا کے درمیان اختلاف صرف اس بارے میں تھا کہ آیا "دو عورتوں کو بطور گواہ” کی ضرورت مالی معاملات کے علاوہ دیگر امور پر بھی لاگو ہوتی ہے یا نہیں(اکثر علماء کے مطابق عورتوں کی گواہی تمام حالات میں قابلِ قبول نہیں سمجھی جاتی جیسے کہ حدود اور قصاص). ابن حزم اور چند لوگ یہ نظریہ رکھتے تھے، جبکہ بڑے پیمانے پر اسے اکثریت نے اسی وقت رد کر دیا اور اسے کالعدم اور غلط نظریہ قرار دیا ۔

پیدائش ،ردا جیسے معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے ،تاہم امام ابو حنیفہ کے مطابق دو مرد ،ایک مرد اور دو عورتیں گواہی کے لیے مطلوب ہیں ۔ امام ابو حنیفہ کا یہ بھی نظریہ تھا کہ ایک عورت گواہی کے لیے کافی ہو گی یہ جانچنے کے لیے کہ وہ کنواری ہے یا نہیں اگر وہ اپنے شوہر کے نااہل ہونے کا دعویٰ کرے ۔ مالکی مذہب کے مطابق ،اکیلی عورت گواہی کے لیے کبھی بھی کافی نہیں ہوتی ہے ۔

قرآن کے مختلف مشاہدہ/تجزیے کا انکار

۔ قرآن کی صرف ایک قرات ہی درست و متواتر ہے، باقی فتنہ عجم ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں غامدی صاحب پوری امت میں اکیلے کھڑے ہیں اور میرے ناقص علم میں کسی قدیم فقیہہ یا عالم نے اس معاملہ میں غامدی صاحب کی ہمنوائی نہیں کی۔ سو اسلام کے مغربی ممالک یعنی تیونس، الجزائر وغیرہ میں امت کی ایک کثیر تعداد جو قرآن پڑھتی ہے وہ غلط ہے۔

قرآن مجید کا صرف ایک قرعہ صحیح ہے۔ باقی تمام قراءات عجم (غیر عربوں) کے فتنے ہیں۔

حوالہ: میزان، صفحہ 25، 26، 32، دوسرا ایڈیشن، اپریل 2002)

تبصرہ: یہ وہ معاملہ ہے جس میں غامدی پوری امت مسلمہ سے لاتعلق ہے ۔ میری بہترین معلومات کے مطابق، سابقہ ​​فقہا یا علماء میں سے کوئی بھی غامدی کے اس نظریے کی حمایت نہیں کرتا ہے ۔ اس کے اس انتہائی گمراہ کن عقیدے کی روشنی میں تیونس اور الجزائر جیسے ممالک میں تمام مسلمان قرآن مجید کی تلاوت غلط طریقے سے کر رہے ہوں گے۔

مردوں کے سونا پہننے کے خلاف ممانعت کا انکار

۔ سونا مر دوں پر حلال ہے۔ یہ غامدی صاحب کا وہ تفرد ہے جس میں ۱۴۰۰ سالوں میں کوئی ایک شخص بھی انکا ہمنوا نہیں ہے۔

سونا پہننا مردوں کے لیے حلال ہے۔

نوٹ: پچھلے ۱۴۰۰ سالوں میں کسی بھی معروف عالم نے ایسی گمراہ کن رائے کو اختیار نہیں کیا ۔

مسلمانوں کے لیے اللہ کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں اور انبیاء پر ایمان لانے کی بنیادی شرط کا انکار

۔ صرف اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والا بھی جنت میں جا سکتا ہے۔تمام رسولوں پر ایمان لانا جنت میں جانے کے لئے ضروری نہیں۔ یہ تفرد غامدی صاحب نے غلام احمد پرویز سے مستعار لیا ہے۔

تمام انبیاء اور رسولوں پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ جو شخص محض اللہ اور روز جزا پر یقین رکھتا ہو وہ بھی جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔ غامدی نے یہ نظریہ غلام احمد پرویز (بدعتی پرویزحدیث کو رد کرنے والے فرقے کا بانی) سے لیا ہے۔

حدیث کو شریعت کا ماخذ ہونے کا انکار

۔ صحیح بخاری و مسلم اور احادیث کی جتنی کتابیں موجود ہیں، ان میں موجود احادیث کی حیثیت تاریخی حقائق کی ہے۔ ان میں موجود کسی ایک حدیث سے بھی دین میں نہ کمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی بیشی۔ اس معاملہ میں منکر حدیثوں کا ایک جم غفیر غامدی صاحب کا ہمنوا ہے لیکن جمہور امت اور قدیم فقہاء میں سے کوئی ان کے ساتھ نہیں۔

تمام نبوی تحریریں جو صحیح البخاری، صحیح مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں محض تاریخی حوالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے کوئی نبوی روایات دین میں سے کوئی چیز بڑھا اور گهٹا نہیں سکتی ہے ۔

تبصرہ: حدیث کے منکرین کا ایک وسیع حلقہ اس مسئلہ پر غامدی سے متفق ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر امت مسلمہ کی اکثریت اور فقہاء اس کو بدعت اور کفر سمجھتے ہیں۔

متعلقہ: گمراہ کن نظریہ: جاوید غامدی کا ردِ حدیث، مہدی اور اجماع

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قائم کردہ فیصد کا انکار

۔ حکومت چاہے تو زکوٰۃ کے نصاب میں ردو بدل کرسکتی ہے اور ڈھائی فیصد کی جگہ جو مد چاہے مقرر کرسکتی ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق اس معاملہ میں بھی صرف منکر احادیث ہی غامدی صاحب کے ہمنوا ہیں۔ سلف سے لیکر خلف تک جمہور امت اس معاملہ میں ان کے مخالف سمت کھڑی ہے۔

حکومت زکوۃ کے نصاب کو ضروری سمجھے تو بدل سکتی ہے (کم سے کم رقم جو کسی کو زکوٰۃ دینے کا ذمہ دار بناتی ہے) ، یعنی حکومت 2.5 فیصد کی بجائے کوئی بھی مناسب فیصد مقرر کر سکتی ہے۔

زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)

زکوٰۃ کا نصاب منصوص نہیں ہے (شریعت کے ماخذ نصوص کے اندر قائم ہوئی)۔ (قانون عبادات صفحہ 119)

نوٹ: غامدی سے اس پر صرف منکر حدیث ہی متفق ہو گا۔ ابتدائی علماء سے لے کر آج تک امت مسلمہ غامدی کی اس گمراہ کن رائے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔

عقیدہ ترک کرنےکی سزائے موت سے انکار

۔ اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہیں۔ اس معاملہ میں بھی کوئی قدیم فقیہہ غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں۔ تمام فقہاء کا اجماع موجود ہے مرتد کی سزا قتل پر۔ زیادہ سے زیادہ اختلاف یہ ہے کہ اسکو توبہ کا موقع دیا جائیگا یا نہیں۔ عمرؓ اور باقی صحابہؓ کے آثار سے توبہ کا موقع دیا جانے والا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔

اسلام میں مرتد (مرتد) کے لیے کوئی سزائے موت نہیں ہے۔

نوٹ: ابتدائی فقہا میں سے کوئی بھی اس معاملے میں غامدی کے ساتھ متفق نہیں ہے۔ سب سے زیادہ اختلاف فقہاء کے درمیان صرف اس بات پر تھا کہ مرتد کو توبہ کا موقع دیا جانا چاہیے یا نہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے مطابق انہیں توبہ کرنے اور اسلام کی طرف واپسی کا موقع دینا چاہیے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ترجیحی موقف ہے۔

سنت کی عظیم اہمیت کا انکار

۔ سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے۔ سنت صرف ۲۷ اعمال کا نام ہے۔ جبکہ غامدی صاحب نے مئی ۱۹۹۸، ماہنامہ اشراق ص ۳۵ میں سنت کی ایک فہرست تیار کی جس میں انہوں نے ۴۰ سنتوں پر مشتمل فہرست جاری کی۔ دوسری جانب اپریل ۲۰۰۲ء میں غامدی صاحب نے ۴۰سنتوں کی فہرست سے ۱۳سنتوں کو حذف کردیا اور صرف ۲۷ سنتوں کی فہرست جاری کردیں۔دس برس میں ۱۳سنتوں کو حذف کردیا تو آئندہ ۲۰ برسوں میں غامدی صاحب کیا ہم یہ توقع رکھیں کہ بقیہ ۲۷ سنتیں بھی ہم سے چھوٹ جائیں گی۔ جب کو سنتوں کی فہرست دینے کے بعد دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قطعی طور پر صرف یہی سنت ہیں جتنا قطعی قرآن اور اس میں کسی کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا ۔ لیکن قطعیت کا عالم یہ ہے کہ ۱۰ برسوں میں ۴۰ سے ۲۷ کی تعداد پر اتر آئے۔

سنت سے مراد صرف طریقے اور اعمال ہیں۔ اس کا آغاز حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوا ہے۔ سنت مجموعی طور پر صرف 27 اعمال پر مشتمل ہے۔

(میزان، ص 10)

1998 میں, غامدی نے ۴۰ سنت اعمال کی فہرست کو اپنے ماہانہ رسالہ اشراق (ص 35) میں شائع کیا۔ لیکن بعد میں، 2002 میں، اس نے فہرست سے ۱۳ سنتوں کو نکال دیا اور ان کی تعداد کم کر کے 27 کردی۔ صرف دس سال کے عرصے میں، غامدی نے 13 سنتوں کو بر طرف کر دیا، تو یہ خیال کرنا صحیح ہو گا کہ اگلے ۲۰سالوں میں ممکن ہے کہ باقی کو بھی رد کر دے گا ۔

سنت اعمال کی فہرست پیش کرنے کے بعد، اُس نے نے سختی سے اعلان کیا کہ صرف یہی سنت اعمال ہیں اور یہ قرآن مجید کی طرح طے شدہ اور حتمی ہیں ۔ ان میں اضافہ یا تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تاہم، اس کے باوجود کہ اس نے ان کے لیےمستندی اور قطعیت (قطعیہ) کا دعویٰ کیا تھا، پھر بھی وہ محض دس سال کے بعد ان سنتوں کی تعداد کو 40 سے 27 تک کم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

موسیقی کی ممانعت کا انکار

موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)

موسیقی اور گانا جائز ہے۔ (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004، صفحہ 8، 19)

۔ موسیقی مباحات فطرت میں سے ہے سو اسلام میں حلال ہے۔ اس معاملہ میں قدماء میں ابن حزم اور ماضی قریب میں ابوالکلام آزاد اور جعفرشاہ پھلواری غامدی صاحب کے ہمنوا ہیں۔ جبکہ فقہائے اربعہ کا موسیقی کی حرمت سے متعلق اجماع موجود ہے جو کہ غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی کے نزدیک دین میں حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔

موسیقی ان چیزوں میں سے ہے جو مباح (جائز) ہیں اور یہ فطرت میں سے ہے، یعنی یہ انسان کا فطری مزاج ہے ۔ موسیقی اور گانا دونوں جائز اور حلال ہیں۔

نوٹ: جہاں تک اس مسئلہ میں جو غامدی سے متفق ہیں، ان میں سے پہلے علماء میں ابن حزم تھے اور ماضی قریب میں ابوالکلام آزاد اور جعفر پھلواری تھے۔ اگرچہ، چاروں اماموں کے درمیان اجماع ہے کہ موسیقی اسلام میں صریح حرام ہے۔ اور درحقیقت، غامدی کے استاد امین احسن اصلاحی کے مطابق یہ اجماع اس کی ممانعت کے لیے کافی ثبوت تھا۔

غیر محرم مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی ممانعت کا انکار

۔ عورت اور مرد مصافحہ کر سکتے ہیں۔ غامدی صاحب نے یہ تفرد یوسف القرضاوی سے مستعار لیا ہے جبکہ قدیم فقہاء میں سے کوئی بھی اس معاملہ میں انکا ہمنوا نہیں ہے۔

غیر محرم مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔

نوٹ: غامدی نے یہ اشتعال انگیز موقف یوسف القرضاوی سے مستعار لیا ہے، جب کہ ابتدائی فقہاء میں سے کسی نے بھی اس نظریے کو قبول نہیں کیا۔

نکاح میں گواہوں کی شرط کا انکار

۔ ایک لڑکا اور لڑکی متعہ کی طرح از خود ایجاب و قبول کرکے ایک دوسرے کے میاں بیوی بن سکتے ہیں۔ اس معاملہ میں کوئی غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں۔ فقہاء میں اس معاملہ میں زیادہ سے زیادہ جو بحث رہی ہے وہ ولی کی رضامندی و غیر رضامندی کی رہی ہے لیکن مطلقاً ازخود نکاح کرلینے کی اجازت تو صرف غامدی صاحب کا ’’اجتہاد‘‘ ہے۔

لڑکا اور لڑکی خود نکاح (جیسے متعہ) کر سکتے ہیں (بغیر گواہوں کے) اور میاں بیوی بن سکتے ہیں۔

نوٹ: اس پر غامدی صاحب سے کوئی ایک عالم بھی متفق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان سب سے اہم اختلاف یہ تھا کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ولی (ولی) کی رضامندی شرط ہے یا نہیں۔ تاہم، بغیر کسی گواہ کے مرد اور عورت کے درمیان نکاح کرنا ایک احمقانہ "اجتہاد” ہے جو صرف غامدی صاحب کے لیے ہے۔

خلیفہ کا انکار

۔ اسلام انسان کی انفرادی زندگی سے عبارت ہے، اسکا کوئی تعلق انسان کی اجتماعی زندگی سے نہیں، اس لئے مسلمانوں میں خلافت کے ادارے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ اس معاملہ میں قدیم فقہاء میں کوئی بھی غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں۔ موجودہ دور میں منکر حدیث اور وحید الدین خان صاحب غامدی صاحب کے موئید ہیں اس بابت۔

اسلام کا تعین فرد کی زندگی/عمل سے ہوتا ہے۔ اس کا دوسرے انسانوں کی اجتماعی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے شریعت میں ادارہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

نوٹ: اس دور میں اس مسئلہ میں صرف منکرین حدیث اور وحید الدین خان غامدی صاحب سے متفق ہیں۔

جہاد اور جزیہ کے تصورات کا انکار

اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)

جہاد اور قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ (میزان، صفحہ 240، دوسرا ایڈیشن، اپریل 2002)

۔ کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں۔ اس بابت بھی قدیم فقہاء میں سے کوئی غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں۔موجودہ دور میں جزیہ کی موقوفی کی بابت یوسف القرضاوی غامدی صاحب کے موئید ہیں۔ (میزان ص 270، طبع دوم اپریل 2002)

کفار کے خلاف جہاد کا حکم اب باقی نہیں رہا۔ اُن کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں ہے جنہیں شکست دی گئی ہے ۔ (میزان، ص 270، دوسرا ایڈیشن، اپریل 2002)

نوٹ: ابتدائی فقہاء میں سے کوئی بھی اس معاملے میں غامدی کی حمایت نہیں کرتا، اور ہم عصر میں سے یوسف القرضاوی کے علاوہ کوئی بھی ان سے متفق نہیں ہے۔

دیہہ کے تصور کا انکار

۔ دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔ میرے ناقص علم میں بھی اس بابت کوئی فقییہ غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں۔ اگر ہو تو یہ بھی ان فقیہہ کے تفرد ات میں سے ایک ہوگا۔

(برہان ص 19,18، طبع چہارم)

دیہ (خون کی رقم) کا قانون ایک ایسی چیز ہے جو صرف عارضی تھی۔ (برہان، صفحہ 18، 19، چوتھا ایڈیشن)

میرے محدود علم کے مطابق کوئی بھی فقہا اس میں بھی غامدی سے متفق نہیں ہے۔ اور اگر ہے بھی تو اسے اس فقیہ کا علیحدہ نظریہ سمجھا جائے گا۔

قتال خطا کی صورت میں ادا کی جانے والی رقم کا انکار

۔ قتل خطاء میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے، یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔ میرے ناقص علم میں بھی اس بابت کوئی فقییہ غامدی صاحب کا ہمنوا نہیں۔ اگر ہو تو یہ بھی ان فقیہہ کے تفرد ات میں سے ایک ہوگا۔

قتال خطا (ایک حادثاتی قتل) کی صورت میں دیت (خون کی رقم) کی جو رقم ادا کرنی ہے وہ ایسی چیز نہیں ہے جو مقدس نصوص میں قائم کی گئی ہو۔ یہ مختلف اوقات میں مختلف ہو سکتا ہے۔

(برہان، صفحہ 18، 19، چوتھا ایڈیشن)

میری سمجھ کے مطابق، غامدی کو اپنے اس نظریے کی کسی سے حمایت حاصل نہیں ہے۔

مشت زنی کے خلاف ممانعت کا انکار

۔ مشت زنی یعنی جلق مباح ہے

مشت زنی مباح (جائز) ہے۔

بعض ائمہ کی طرف سے جو سب سے زیادہ انکشاف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مشت زنی ایک خاص صورت میں جائز ہو سکتی ہے: ایک فرد کے لیے مشت زنی کرنا صرف اس صورت میں ہے کہ وہ اپنی خواہش کو کم کرے (تسکین الشوہ) جب اصل میں زنا کرنے کا بہت سنگین اور حقیقی خطرہ ہو۔

تکفیر کے تصور کا انکار

۔ نبیﷺ کی رحلت کے بعد امت میں نہ کسی عالم، نہ حکومت و ریاست اور نہ ہی اجماع کو کوئی حق حاصل ہے کہ کسی کی تکفیر کرے، سو غلام احمد قادیانی کی تکفیر پر امت کا جو اجماع ہوا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ کوئی صحابیؓ، کوئی فقیہہ اور کوئی ایک قدیم عالم اس بابت غامدی صاحب کا موئید نہیں۔ یہ انکا ذاتی تفرد ہے۔

(ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیوی گھر سے رحلت کے بعد کسی کی تکفیر کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے ۔

(ماہنامہ: اشراق، ص 54، 55، دسمبر 2000)

لہٰذا کوئی بھی اور تمام تکفیر ناجائز اور غلط ہے، اس میں دجال جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر پوری امت مسلمہ کی متفقہ تکفیر شامل ہے ۔

نوٹ: اس مسئلہ میں کوئی بھی صحابی یا فقہا غامدی سے متفق نہیں ہے ۔

متعلقہ: کیا جاوید غامدی خفیہ قادیانی ہے؟

غامدی کے کاموں میں مزید بدعات کا مشاہدہ کیا گیا۔

سنت قرآن کی پیش گوئی کرتی ہے۔

سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)

غامدی صاحب کے ہاں یہ کھلا تضاد موجود ہے کہ وہ کبھی قرآن کو سنت پر مقدم مانتے ہیں، اور کبھی سنت کو قرآن سے مقدم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ قرآن کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

ہر شخص پابندہے کہ اس (قرآن) پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھرائے (میزان ص 23، طبع دوم اپریل 2002)

پھر اسی کتاب (میزان) میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’سنت قرآن سے مقدم قرآن کے بعد نہیں‘‘ (ص 52)

یہاں غامدی صاحب نے دونوں مقامات پر حرف ’’پر‘‘ اور حرف ’’سے‘‘ کا مغالطہ دیا ہے، مگر یہ مغالطہ اس وقت صرف مغالطہ نہیں رہتا بلکہ ایک کھلا تضاد بن کر سامنے آتا ہے جب اسے اردو زبان کے درج ذیل جملوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔

(1) اﷲ تعالیٰ پر کسی چیز کو مقدم نہیں ٹھہرانا چاہئے۔

(2) نبیﷺ اﷲ تعالیٰ سے مقدم ہے

کیا جو شخص اردو زبان جانتاہو، مذکورہ بالا جملوں میں کھلا تضاد نہ پائے گا؟

سنت قرآن کی پیش گوئی کرتی ہے۔ (حوالہ: میزان، ص 52، دوسرا ایڈیشن، اپریل 2002)

غامدی کے مطابق، سنت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہوئی، پھر بنی اسرائیل کے انبیاء کے ذریعے جاری رہتی ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوتی ہے۔

نوٹ: وہ دراصل یہاں اپنے آپ سے متصادم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ لفظ "مقدم” (مقدم) کے معنی اور استعمال میں الجھن کا شکار ہے۔

وہ کہتا ہے: ہر شخص اس بات کا پابند ہے کہ قرآن پر کسی چیز کو "مقدم” نہ سمجھے۔ (میزان، ص 23)

لیکن پھر وہ بعد میں اسی کتاب میں کہتا ہے: سنت قرآن پر "مقدم” ہے، قرآن کے بعد نہیں” (میزان، صفحہ 52)

قبولیت کی ضرورت کے لیے قرآن و سنت ایک ہی درجہ رکھتا ہے۔

ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے (میزان ص 10 طبع دوم)

ثبوت (توثیق/اثبات) کے طور پر، قرآن اور سنت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں اجماع (اجماع) اور تواتر (جو اتنے بڑے پیمانے پر نسل در نسل منتقل ہو چکے ہیں کہ اس کا من گھڑت ہونا ناممکن ہے) کے ذریعے تصدیق شدہ ہو جاتے ہیں۔ (میزان، ص 10)

عقیدہ کے نکات قائم کرنے کے لیے حدیث کا استعمال نہیں کیا جا سکتا

حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)

اسلامی عقائد حدیث کے ذریعے قائم نہیں ہوسکتے۔ (میزان، ص 64)

متعلقہ: جاوید غامدی اور ردِ حدیث کا ٹروجن ہارس

اسلام کی بنیاد قرآن، فطرہ، سنت ابراہیمی اور قدیم صحیفوں پر ہے۔

دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)

دین کی بنیاد اور ماخذ قرآن مجید، فطرت کی حقیقتیں(فطری مزاج)، سنت ابراہیمی اور قدیم صحیفے ہیں۔ (میزان، ص 48)

نیکی اور بدی کا تعین فطرہ سے ہوتا ہے۔

دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)

دین میں معروف (اچھی) ​​اور منکر (برائی) کا تعین انسان کی فطرت (فطری مزاج) سے ہوتا ہے۔ (میزان، ص 49)

سزائے موت صرف دو جرائم کے لیے منظور ہے۔

اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون 2006)

غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے

اسلام میں، سزائے موت صرف دو جرائم کے لیے دی جا سکتی ہے: قتل اور فساد فی الارض (زمین پر فساد برپا کرنا)۔ (برہان، صفحہ 143، چوتھا ایڈیشن، جون 2006)

اس طرح اس کا خیال ہے کہ "مرتد” یا "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کی توہین کرنے والے کے لیے کوئی سزائے موت نہیں ہے۔

ایک مرد اور عورت کو قتل کرنے کے لئے خون کی رقم ایک جیسی ہے۔

عورت اور مرد کی دیت برابر ہوگی (برہان ص 18، طبع چہارم)

مرد اور عورت کی دیت (خون کی رقم) برابر ہے۔ (برہان، ص 18، چوتھا ایڈیشن)

مرتد کے لیےکوئی سزائے موت نہیں ہے۔

مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے (برہان، ص 40، طبع چہارم)

سزائے موت مرتد کی سزا کے طور پر منظور نہیں ہے۔ (برہان، ص 40، چوتھا ایڈیشن)

زنا کی سزا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کے لیے برابر ہے

شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)

شادی شدہ ماں یا غیر شادی شدہ ماں کے زنا کی سزا ایک ہی ہے: 100 کوڑے۔ (میزان، ص 299، 300، دوسرا ایڈیشن)

شریعت کی رو سے شراب نوشی قابل سزا نہیں ہے۔

شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)

شراب پینے کی کوئی شرعی سزا نہیں ہے۔ (برہان، ص 138، چوتھا ایڈیشن)

کفار مسلمانوں کے وارث ہو سکتے ہیں ۔

غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)

غیر مسلم بھی مسلمانوں سے میراث پا سکتے ہیں۔ (میزان، ص 171، دوسرا ایڈیشن، اپریل 2002)

سور کی چربی، سور کی کھال وغیرہ خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا جائز ہے۔

سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)

سور کی کھال، سور کی چربی وغیرہ کی تجارت اور استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔ (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998، صفحہ 79)

زوجین اور والدین کے وراثت میں ملنے کے بعد جو بچ جاتا ہے اس کی وارث بیٹیاں ہوں گی ۔

اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی (یا شوہر) کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا، ان کو کل ترکے کا دو تہائی 2/3 نہیں ملے گا (میزان، حصہ اول ص 70، مئی 1985) (میزان ص 168، طبع دوم اپریل 2002)

اگر میت کے بچوں میں صرف بیٹیاں ہی وارث ہیں تو انہیں والدین یا زوجین کے وراثت کے بعد بچ جانے والی وراثت کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ انہیں کل وراثت کا دو تہائی حصہ نہیں ملے گا۔ (میزان، حصہ 1، صفحہ 70، مئی 1985) (میزان صفحہ 168، دوسرا ایڈیشن، اپریل 2002)

خواتین کو پردہ کرنا یا حجاب پہننے کی ضرورت نہیں ہے ۔

عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)

عورتوں کے لیے سر/بال ڈھانپنا یا پردہ کرنے کا شرعی حکم نہیں ہے۔ (ماہنامہ اشراق، مئی 2002، صفحہ 47)

صرف چار چیزیں حرام ہیں۔

کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت، غیر اﷲ، کے نام کا ذبیحہ (میزان ص 311 طبع دوم)

صرف چار قسم کی اشیاء حرام ہیں: خون، مردار، سور کا گوشت اور اللہ کے نام کے علاوہ ذبح کیے جانے والے جانور۔ (میزان، ص 311، دوسرا ایڈیشن)

کسی رسول کو کبھی قتل نہیں کیا گیا تھا ۔

بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)

بعض انبیاء قتل ہوئے لیکن کسی رسول کو قتل نہیں کیا گیا۔ (میزان، حصہ 1، صفحہ 21، 1985 ایڈیشن)

متعلقہ: جاوید غامدی نے اسلام کے عالمگیر پیغام کو جزیرہ نمائے عرب تک محدود کر دیا

یاجوج، ماجوج اور دجال مغربی اقوام ہیں۔

یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)

یاجوج (یاجوج)، ماجوج (ماجوج) اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996، صفحہ 61)

تصویر حرام نہیں ہے۔

جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)

جانداروں کی تصویر (تصویر بنانا) بالکل جائز ہے۔ (تصویر کا مصلح، ص 30)

خواتین نماز میں مردوں کی امامت کر سکتی ہیں۔

عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)

عورت نماز میں مردوں کی امام ہو سکتی ہے۔ (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، صفحہ 35-46)

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس شدید گمراہ شخص کی طرف سے پھیلائے جانے والے خطرناک انحراف اور کفر سے محفوظ رکھے۔ آمین

مفتی عبداللہ کو ٹوئٹر پر فالو کریں: MuftiAMoolla@

MuslimSkeptic Needs Your Support!
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments