
سعودی عرب نے حال ہی میں اپنے روایتی اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے کچھ اہم خطرات دیکھے ہیں۔ یہ خطرات سیکولر(لادینی) نفاذ کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور غیر اسلامی تبدیلیوں کی اس لمبی قطار میں تازہ ترین، ہالووین پارٹی کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی نشریات کو جانچنے والے ادارے ‘مڈل ایسٹ مانیٹر‘ کے مطابق:
سعودی عرب نے ہالووین کے تہوار کو جو کسی زمانے میں ممنوعہ تھا، منانے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ یہ دو مقدس مساجد کی سرزمین کے لیے اس وقت کہ جب مملکت اپنے در حقیقت حکمران، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے زیر اثر ملک کو جدید طرز پر لانے کے مقصد سے سماجی اصلاحات کا نفاذ چاہتی ہو، ایک تاریخی اقدام کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس تقریب کو غیر تصوراتی طور پر ‘ڈراونا ویک اینڈ’ کا نام دیا گیا اور یہ ریاض بلیوارڈ میں دو دن تک جاری رہا۔ نہ صرف اس تقریب کی سعودی حکومت نے میزبانی کی تھی، بلکہ انہوں نے اس تہوار کے لیے مخصوص لباس زیب تن کر کے آنے پر مفت داخلے کی پیشکش کر کے لوگوں کو اس میں شرکت کی ترغیب بھی دی۔ اس کی وجہ سے ایک بہت ہی عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا: مسلمان بھوت، بدروح، راکشس اور چڑیلوں کا لباس پہن کر گھوم رہے تھے۔ حرام چیزیں جیسے کہ مرد وزن کا اختلاط جوعمومی طورپراس طرح کی تقریبات میں ہوتی ہیں، پہلے ہی سے موجود تھیں۔ البتہ جو چیزسب سے زیادہ متنازعہ بنی اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو بجا طور پرغصہ دلایا وہ یہ تھی کہ ہالووین ایک ایسا تہوار ہے جوعیسائی مناتے ہیں۔ اس تہوارکی جڑیں ‘آل سینٹس ڈے’ یعنی ‘تمام بزرگوں کا دن’ سے منسلک ہیں، جو تاریخی طور پر عیسائیوں کے لیے اپنے مقدس بزرگوں کی تعظیم کا دن تھا۔
متعلقہ مضامین: اختلاط: ایک نہایت اہم لیکن نظر انداز اسلامی ممانعت
حالانکہ واقعاتاََ ہالووین کا آغاز یہاں سے نہیں ہوا تھا۔ بلکہ، اس کی حقیقی تاریخ کلٹی (Celtic) قوم کی افسانوی داستانوں اور بت پرستی سے جڑی ہے۔ اس تہوار کی سب سے قدیم محفوظ شدہ دستاویزات نوویں صدی عیسوی میں ملتی ہیں اور اس وقت اسے سامہین تہوار کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ تہوار ان چار بڑے موسمی تہواروں میں سے ایک کا حصہ تھا جو آئرش قوم کے مشرکین مناتے تھے۔ خصوصاََ یہ جوکہ موسم گرما کے اختتام اور سال کے ‘تاریک تر’ حصے کے آغاز کی علامت تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ زندوں اور مُردوں کی دنیا کے درمیان ایک پردہ موجود ہے، اور اس کی عارضی نوعیت کی وجہ سے، وہ اس بات پر یقین رکھتے تھےکہ اس دوران یہ پردہ باریک ترین ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اس دنیا اور ’دوسری دنیا‘ کے درمیان ایک گزرگاہ کھل جاتی ہے اور یہ کہ ان دنوں میں بد روحیں اس ’دوسری دنیا‘ سے اس دنیا میں اتریں گی۔ یہ بات کلٹی قوم کے لوگوں کے درمیان بہت خوف کا باعث ہوتی اور اس دن کی جانے والی زیادہ تر رسومات ان روحوں جنہیں اَوس سی (Aos Sí) کہا جاتا ہے، سے تحفظ حاصل کرنے کے مقصد سے انجام دی جاتی تھیں۔ انہیں ‘تھوا جے’ (Tuath Dé) یعنی "دیوتاؤں کا قبیلہ” بھی کہا جاتا تھا۔ مختصراً، یہ کلٹی افسانوی داستانوں کے باطل خدا ہیں۔
متعلقہ مضامین: [WATCH] سعودی ہالووین: حلال یا حرام؟
لکڑی کے ایک بڑے پہیے کو جلا کر ایک بہت بڑا آگ کا اَلاؤ روشن کیا جاتا، اور اس میں ہڈیاں ڈال دی جاتیں، اس طرح اسے ’بون فائر‘(‘بون’ معنے ہڈی اور ‘فائر’ یعنی آگ) کی اصطلاح مل گئی۔ مویشیوں کو قربان کیا جاتا اوربطور نزر ‘اَوس سی’ کو پیش کیا جاتا تاکہ انہیں مطمئن کرکے ان کے غضب سے محفوظ رہا جائے۔ اس تین روزہ تہوار میں حصہ لینا لازمی تھا اور جو بھی شرکت کرنے سے انکار کرتا، اسے حکام کی طرف سے سزا دی جاتی تھی۔ لوگ اس الاؤ سے آگ کے شعلے روشن کرکے انہیں اپنے گھروں میں واپس لے جاتے، ان کے ساتھ اپنے آتش دانوں کو روشن کرتے، اور ساری رات کھانے، پینے اور علومِ غیب کی رسومات ادا کرتے ہوئے گزارتے۔ کھانے کی میز کے ارد گرد ایک نشست خالی چھوڑ دی جاتی تاکہ فوت شدگان میں سے کوی ان کے ساتھ کھانا کھائے (جسے ‘ڈَمب سَپر’ یعنی ‘گونگا کھانا’ کہا جاتا ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھرپورکھانا پینا اس تہوار کا بہت اہم حصہ رہا ہوگا:
دستاویزات میں بسیار خوری دعوتوں میں ضرورت سے زیادہ شراب پینے اور زیادہ کھانے کا بھی ذکر ہے۔ ایک خیال یہ تھا کہ ایک بار جب آپ گہرے نشے کی ایک خاص سطح پر پہنچ جاتے ہیں، تو آپ دیوتاؤں کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں۔
اَوس سی کے خوف سے، یہ مشرکین عجیب لباس زیب تن کرتے، بدروحوں کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے تاکہ انہیں ان سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یہی خاص قسم کے لباس پہننے کی رسم کی بنیاد ہے جسے ہم آج ہالووین میں دیکھتے ہیں اور اسی لیے ملبوسات اکثر شیطانی مخلوقات جیسے بھوتوں، راکشسوں، قاتل مسخروں اور چڑیلوں کی نقل ہوتے ہیں۔ نوجوان اپنے منہ کالے کرتے اور گھر گھر جا کر خاندانوں کو ڈراتے کہ اگر ان کا استقبال نہ کیا گیا تو وہ ان کے ساتھ شرارت کریں گے۔ یہ ممکن ہے کہ ‘ٹَرِک یا ٹَریٹ’ (یعنی شرارت یا ضیافت) کی رسم اسی عمل سے شروع ہوی ہو۔
مویشیوں کا قربان کیا جانا تو معروف ہے لیکن یہ رائے بھی موجود ہے کہ انسانی قربانیاں بھی اس تہوار کا حصہ رہی ہوں گی۔ یہ رائے کلٹی پادریوں کے اس طرح کی قربانیاں کرنے اور یہاں تک کہ آدم خوری میں حصہ لینے کے ثبوت موجود ہونے کی وجہ سے قائم کی گئی ہے۔
اَوس سی میں بہت سی عجیب و غریب شیطانی مخلوقات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ‘پَک’، ایک خَبیث سیاہ کھال والی مخلوق جو لوگوں کو گمراہ کرنے اور دھوکہ دینے کے لیے جانوروں کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اسے عام طور پر گھوڑے یا کالے بکرے کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک اور مثال ‘دُلّہان’ ہے، بغیر سَر کے سوار ایک شعلہ زدہ آنکھوں والے گھوڑے پر، جو کلٹی دیوتا ‘کروم ڈب’ پر مبنی ہے۔ ‘لیڈی گیوین’، ایک اور سر کے بغیر گھوڑے کی سوار ہے جس کے ساتھ اکثر کالا سُوَر ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ ‘جیک او لالٹین’ (جوقددوتراش کر بنایا جاتا ہے) کی بھی شیطانی جڑیں ہیں جو لوک داستانوں سے نکلتی ہیں۔ کہانی کے مطابق جیک نامی ایک شرابی نے شیطان کو دھوکا دے کر اسے پھنسایا۔ اس نے شیطان کو اس شرط پر چھوڑنے کی پیشکش کی کہ شیطان اس کی روح کو جہنم میں نہیں لے جائے گا۔ شیطان اس پر راضی ہو گیا اور آزاد ہو گیا۔ تاہم جیک کی موت پر وہ نہ تو جنت میں جا سکتا تھا اور نہ ہی جہنم میں۔ اور اس طرح اسے ایک تراشے ہوئی شلجم سے بنی لالٹین کی روشنی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے عالم برزخ میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
جس طرح آئرش مشرکین نے اپنے جھوٹے معبودوں کو خوش کرنے کی کوشش کی، اسی طرح آئرش سرزمین پر آنے والے عیسائیوں نے ان مشرکین کو مطمئن کرنے کی کوشش میں اپنی ‘آل سینٹس ڈے’ کی چھٹی کو (جو اصل میں 13 مئی کو ہوتی تھی) یکم نومبر کے سامہین تہوار کے ساتھ ملا کر انہیں عیسائیت کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور اس دن سے پہلے کی شام کو ‘آل ہیلوز ایو’ کے نام سے جانا جانے لگا، جسے اب صرف ہالووین کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر، عیسائیوں کو دراصل اپنے مقدس دنوں کو مشرکانہ تہواروں کے ساتھ ملانے کی عادت ہے۔ انہوں نے نہ صرف ہالووین کے ساتھ بلکہ کرسمس اور ویلنٹائن ڈے کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔
متعلقہ مضامین صرف کرسمس ہی نہیں! کیسے عیسائیت ویلنٹائن ڈے کے لیے بت پرستی کو اپناتی ہے۔
کچھ مسلمان اور دینی پیشوا ان عیسائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اسلام کو ایک لبرل (آزاد خیال) مذہب بنا کرپیش کرکے جدید لبرل لوگوں اور ملحدوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
اگرہم اس مشرکانہ تہوار میں شریک نہ ہوئے، تو کفار کبھی توحید کے راستے پر کیسے چلیں گے؟!
پھر یہی لوگ اس بات پر حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ لبرل (آزاد خیال) مسلمان اسلام کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ عیسائیوں نے یہ حربہ کس طرح آزمایا اور بری طرح ناکام ہوئے؟ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کیسے کامیاب ہونے کی بجائے، انہوں نے اپنے مذہب کو اس حد تک گرا دیا کہ آج کوئی بھی عیسائی ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟
اور کیا کسی مسلم حکمران اور حکومت کو ایک اسلامی ملک میں اس تہوار کی جو واضح شرک اور کفر پر مبنی ہے، سہولت فراہم کرنی چاہیے، ؟ کیا مسلمانوں کو خاموش رہنا چاہیے اور ’حاکم کی اطاعت‘ کرنی چاہیے، جب کہ وہ ایک مسلم ملک کو لادینی اور غیرمزہبی کرنے کے لیے لامتناہی دباؤ ڈال رہا ہو؟ اور نہ صرف کوئی مسلم سرزمین بلکہ وہ جو مسلم دنیا کا مرکز ومہور ہے!
مزید کتنی ناچ گانے کی تقریبات کروای جائیں گی؟ مزید کتنی قرآنی آیات اور احادیث کو نصوص سے نکالنا پڑے گا؟ تعلیم کواور کس قدر تیزی سے جدید رنگ میں رنگنا ہوگا؟ اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے دوستانہ اور محبت بھرے رویے کو کس قدر برداشت کرنا ہوگا؟ مزید کتنے کفریہ تہوار منانے پڑیں گے؟
آخرکتنا کچھ ہونا پڑے گا اس سے پہلے کہ مسلمان سعودی، قطر، متحدہ عرب امارات یا ترکی جیسے مسلم ممالک کو جدید بنانے پر ان ’’حکمرانوں‘‘ کی شدید مخالفت کریں؟
یا کیا ہم محض بھولپن میں یہ فرض کر لیں کہ ان کے ارادے اچھے ہیں اور مسلمانوں کی نوجوان نسل کو آہستہ آہستہ لبرل ملحد بنتے ہوئے بے بسی سے دیکھتے رہیں؟
متعلقہ مضامین: اپنے مسلمان بچوں کو ہالووین کی وضاحت کیسے کریں۔