کس طرح جدیدیت نے انسانی افزائش نسل / تولیدی صلاحیت کو ختم کردیا !

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ بزنس انسائیڈرز کی اطلاعات کے مطابق وبائی امراض کے دوران امریکی آبادی میں افزائش کی شرح اپنی کمترین سطح پر گر گئی، یہاں تک کہ یہ "گریٹ ڈپریشن کے دوران شرح افزائش میں ہونے والی کمی” سے بھی کم ہو گئی۔

اور یہ رجحان صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں تھا، اور نہ ہی یہ وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے مخصوص ہے۔ دی لانسیٹ (ایک معروف برطانوی طبی جریدے) نے 2020 کی ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ 2064 میں انسانی آبادی 9.7 بلین تک پہنچ جائے گی۔

اس کا موازنہ اقوام متحدہ کے سابقہ ​​تخمینے سے کریں جس کے مطابق 2100 میں تقریباً 11 بلین تک پہنچ جائے گی۔ متوقع تعداد میں یہ زبردست تبدیلی شرح افزائش میں کمی پر مبنی ہے۔

لانسیٹ تحقیق مزید بتاتی ہے کہ اس وقت تک، 195 میں سے 183 ممالک میں كُل شرح پیدائش (TFR: total fertility rate) تبدیلی کی سطح سے بھی کم ہو جائے گی، جو کہ فی عورت 2.1 بچے ہیں۔

خصوصاً کام کرنے کی عمر والی آبادی میں کمی ایک طرف چین اور ہندوستان جیسے ممالک کے ابھرنے پر اثر انداز ہو گی، جبکہ باقی ممالک کو مزید مہاجرین/ آبادکار لانے پر مجبور کرے گی۔

مختصراً كہیں تو یہ معلومات کافی تاریک تصویر پینٹ کرتی ہیں۔

مزید برآں، یہ تبدیلی سنجیدگی سے ڈیموگرافک الارمزم کے وسیع پیمانے پر پھیلے اس بیانیے پر بھی سوال اٹھاتی ہے (جو حقیقت میں اب بھی ماہرین ماحولیات کے درمیان پایا جاتا ہے) کہ انسانوں کی تعداد اس سیارے کے لیے بہت زیادہ ہے۔

اٹھارویں صدی میں مالتھس سے لے کر 1968 میں شائع ہونے والے پال ایرلچ کے "پاپولیشن بم” تک، یہی رجحان مغرب میں عالمگیر تھا۔ مالتھس نے کہا کہ انسانی آبادی کی ہندسی ترقی انسانیت کو دستیاب وسائل کی ریاضی کی ترقی کے برعکس بہت تیز تھی۔ پال ایرلچ کا "پاپولیشن بم” ایک نیو مالتھوسین کام تھا جس نےتمام تر ناکام پیشین گوئیاں کیں۔

لیکن اب مغرب کو دیکھ لیں۔ انہوں نے بچے پیدا کرنا بند کر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور یہ صرف مغرب تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے جنہوں نے "جدیدیت” کی طرف جاتے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔

RELATED: The Death of Fatherhood in the West

تو آئیے تفصیلاً دیکھتے ہیں کہ کس طرح جدیدیت نے انسانی شرح افزائش کو کم کیا اور یوں نسل انسانی کو خطرے میں ڈال دیا۔ ہم یہاں تین مضر ترین مثالوں پر فوکس کریں گے۔

انقلاب ِ فرانس

یہ مخصوص مثال حیران کن ہو سکتی ہے، خصوصاً اس لیے کہ آپ میں سے زیادہ تر فطری طور پر ہم سے خصوصاً صنعتی فروغ اور فیمنزم کے متعلق بات کرنے کی توقع کریں گے (سپائلر الرٹ: یہ موضوعات آگے آئیں گے)۔ تاہم، 1789 کا فرانسیسی انقلاب یقیناً ایک اہم وجہ ہے (جسے گھٹا کر بیان کیا جاتا ہے)۔

سب سے پہلے تو آئیے ذہن میں رکھیں کہ یہ ایک جدیدیت پسند اور لبرل انقلاب تھا، جس میں نام نہاد "روشن خیالی” کی "اقدار” کا عملی اظہار کیا گیا تھا۔

RELATED: France Shuts Down Muslim Publishers – No “Free Speech” for Muslims

امریکی ماہرین اقتصادیات اینریکو سپولور اور رومین واکزیرگ نےاپنے 2019 کے مقالے، فرٹیلیٹی اینڈ ماڈرنٹی میں یہ واضح کیا کہ بہت سے فرانسیسی بولنے والے یورپی ممالک میں شرح افزائش میں کمی درحقیقت انڈسٹریلائزیشن(صنعتی فروغ) ہونے سے پہلے تھی، اور یہ بھی صرف اور صرف فرانسیسی انقلاب کی ثقافتی اقدار کی وجہ سے تھی۔

ایک اکیڈمک ریویو اس مقالے کا کچھ یوں خلاصہ کرتا ہے :

ایک فرانسیسی گاؤں کے تفصیلی ریکارڈز کے ساتھ، پورے یورپ سے شرح افزائش کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ ثقافتی اقدار میں تبدیلی تھی نہ کہ پیداواری تکنیک میں، جسکی وجہ سے فرانس سے شروع ہونے والے چھوٹے خاندانوں میں تبدیلی آئی۔ اس مفروضے کے مطابق، شرح افزائش میں تبدیلی کے کریڈٹ کا اصل مستحق فرانسیسی انقلاب ہے نہ کہ صنعتی انقلاب۔

(…)

واکزیرگ کا قیاس ہے کہ "دورِ استبصار ” (روشن خیالی کے دور) اور فرانسیسی انقلاب کے دوران پیدا ہونے والے ثقافتی افکار نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر، انقلاب بڑھتے ہوئے پادریت/کلیسائیت دشمنانہ خیالات کے پس منظر میں پیش آیا، جس نے کیتھولک چرچ کی شرح افزائش نسل کنٹرول/کم کرنے کی مخالفت کو نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ ایک عنصر، وہ بتاتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے آزادی پسند/ فحش ناولوں نے جس طرح سے اس تصور کو پھیلایا کہ سیکس محض افزائش نسل کے لیے نہیں بلکہ خوشی / لذت حاصل کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال بنیادی وجہ کچھ بھی ہو، وہ کہتا ہے کہ کم بچے پیدا کرنا سماجی طور پر قابل قبول ہو گیا۔

"سیکس لذت کیلیے ہے نہ کہ افزائش نسل کیلیے”۔۔۔ یہ انسانی تعلقات کے متعلق جدیدیت کے ایجنڈے کا بنیادی مقصد ہے۔ اور موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی آزاد پسندی کو ان آزادی پسند/فحش ناولز کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔

RELATED: Internet Addiction – The New Age Drug that Is Harming Muslims

خاص طور پر "ثقافتی اقدار” پر زور دینا بھی دلچسپ بات ہے، کیونکہ صرف صنعتی انقلاب پر مکمل طور پر الزام لگانے اور ہر چیز کو معاشیات تک محدود کرنے سے اسے آسانی سے تاریخ کے مارکسسٹ یا مادیت پسند مطالعہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صنعت کاری نے واقعی اس گندگی میں کردار ادا کیا ہے۔

انڈسٹریلائزیشن /صنعتی فروغ

ٹیڈ کازنسکی نے اپنے مشہور منشور کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔

صنعتی انقلاب اور اس کے نتائج نسل انسانی کے لیے تباہی کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے ہم میں سے جو لوگ "ترقی یافتہ” ممالک میں رہتے ہیں ان کی متوقع عمر میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے، لیکن ساتھ ہی معاشرے کو غیر مستحکم کیا ہے، زندگی کو ادھورا بنا دیا ہے، انسانوں کو ذلت/توہین کا نشانہ بنایا ہے، بڑے پیمانے پر نفسیاتی مصائب میں ڈال دیا ہے (تیسری دنیا میں جسمانی تکالیف میں بھی) اور قدرتی دنیا کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

افزائش نسل کے مخصوص معاملے کے حوالے سے، صنعتی فروغ اپنے ساتھ متعلقہ سماجی مظاہر کا ایک مجموعہ لے کر آیا۔ جن میں شہر کاری اور رہائش؛ بچوں کی پرورش کے لیے بڑھتے اخراجات؛ وغیرہ، شامل ہیں اور صنعتی فروغ سے پہلے دور میں رہنے والے انکے آباؤ اجداد کے برعکس آج یہ عوامل والدین کو بہت زیادہ بچے پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔

نقل کرنے کے لیے بہت ساری تحقیقات ہیں، لیکن ایک مخصوص مطالعہ نے انیسویں صدی کے امریکہ میں افزائش نسل پر صنعتی فروغ کے عمومی اثرات کا جائزہ لیا۔ مطالعہ نے نوٹ کیا کہ "مینوفیکچرنگ میں ملازمت کرنے والے کارکنوں کے حصہ/تنخواہ میں 10 فیصد کا اضافہ شرح افزائش نسل کو تقریبا 3.1 فیصد کم کرتا ہے۔

جنوبی کیرولائنا پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ "ٹیکسٹائل مل کی آمد سے
سن1900 تک شرح افزائش نسل میں گیارہ فیصد کمی ہوئی”

یقینا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی کتنی ہی لامتناہی تحقیقات/ مطالعات ہیں۔ تاہم شانا سوان کی 2021 کی کتاب، کاؤنٹ ڈاؤن، ایک بہترین مطاعہ ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح صنعتی (اور بعد از صنعتی) دنیا ماحولیاتی کیمیکلز (کھانے، گھر کے فرنیچر وغیرہ میں) کے ذریعے مرد اور عورت دونوں کے تولیدی نظام کو بنیادی حیاتیاتی سطح پر سخت تباہ کر رہی ہے۔

فیمنزم

یہ انسانی شرح پیدائش میں کمی کے سوال کا سب سے بدیہی اور واضح جواب ہے۔ نظریہ ءفیمنزم طرز عمل کے ایک ایسے مجموعے کو فروغ دیتا ہے جو مامتا کے متضاد ہیں۔ یہ شرح پیدائش پر قابو پانے اور اسقاط حمل وغیرہ کے ہتھیاروں کو بھرپور طریقے سے پیش کرتا ہے۔

RELATED: Feminism Is Female Narcissism

لیکن جبکہ بہت سے لوگ فیمنزم کے حالیہ رجحانات (WWII کے بعد کی "لہریں”) کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں، امریکی مورخ ڈی ایس اسمتھ نے ایک مضمون میں "گھریلو فیمنزم” کا تصور پیش کیا۔ یہ اس حوالے سے ہے کہ کس طرح انیسویں صدی کے دوران گھروں میں رہنے والی امریکی خواتین پہلے ہی فیمنزم کے رجحانات اور صفات کا مظاہرہ کر چکی تھیں۔ ایسا "پبلک فیمنزم” سے پہلے تھا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ اور یقیناً، فیمنزم کی یہ گھریلو شکل جدیدیت، جمہوریت وغیرہ سے متاثر ہوئی تھی۔

وہ صفحہ باون پر لکھتا ہے:

ایک ممکنہ جواب جدیدیت کے عمل میں خاندان کے ارتقاء سے متعلق ہے۔ امریکی معاشرے کی جمہوریت سازی کے ساتھ، پیدائش سے منسوب عزت وقار میں کمی آئی۔ اعلی سماجی حیثیت والے خاندانوں میں پیدا ہونے والی خواتین اگر اکیلی رہیں تو عزت حاصل نہیں کر سکتیں تھیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی عورت برابر کے اعلیٰ مرتبے کے آدمی سے شادی کر لے، تو اس مرد کا مقام عورت کے عزت وقار کو یقینی نہیں بنائے گا۔ اس (مرد) کی حیثیت اس کی کامیابی پر منحصر تھی۔ بیوی اور ماں کے کردار میں تسلی بخش اور قابل قدر کارکردگی بھی صنعتی دور سے پہلے کے معاشرے میں خاندانی سلسلے سے وابستہ حیثیت کے نقصان کی تلافی نہیں کر سکی۔ اس طرح پبلک فیمنزم اعلیٰ سماجی خاندان کی خواتین کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ہوگی۔ ایک جوہری انسان اور شہری کے طور پر عورت کا یہ تصور قدرتی طور پر روایتی سماجی رشتوں پر ‘روشن خیالی’ کے حملے کی طرف متوجہ ہوا۔

یہ خاص طور پر دلچسپ ہے کیونکہ جبکہ مسلم دنیا میں "پبلک فیمنزم” اب بھی نسبتاً کمزور ہے، لیکن اس "گھریلو فیمنزم” کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ذرا دیر غور کریں کہ مغرب زدہ میڈیا، کمپیشنیٹ (ہمدرد) امام مردوں کو گھر وغیرہ کے کام کرنے پر زور دیتے ہیں ۔

RELATED: Are Wives Responsible for Housework in Islam?

اور جیسا کہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں، "گھریلو فیمنزم” "پبلک فیمنزم” کی تمہید ہے۔

RELATED: Is Feminism the Cause of Women Leaving Islam?

لیکن۔۔۔ کیا اسلام ہی حل ہے؟

جواب ظاہر ہے کہ ہاں میں ہے

کوئی بھی 2010 میں لکھی گئی ایرک کاف مین کی تصنیف، کیا مذہبی لوگ زمین کے وارث ہوں گے؟(شیل دی ریلیجیئس انہیریٹ دی ارتھ؟) پر آسانی سے نظر ڈال سکتا ہے۔ اس کی پوری کتاب بھی بنیادی طور پر اس سوال کا جوابی”ہاں” ہے۔ مثال کے طور پر وہ لکھتا ہے (ص 130):

شریعت کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کا تناسب متاثر کن حد تک دو تہائی تھا، مصر اور اردن میں 80 فیصد سے لے کر انڈونیشیا، نائیجیریا اور بنگلہ دیش میں تقریباً نصف تک۔ شریعت سے متعلق لوگوں کے رویوں کی انکی شرح افزائش کے پیٹرن پر نقشہ کشی کرتے ہوئے، میں نے اسلام اور شرح افزائش کے درمیان ایک مضبوط تعلق دریافت کیا، جو عمر، تعلیم اور آمدنی کو کنٹرول کرتے ہوئے بھی اعداد و شمار کے لحاظ سے اہم ہے۔ دوسری طرف، تھوڑی سی اقلیت جو مذہبی نہ ہونے کا دعویٰ کرتی تھی ان کی شرح افزائش نمایاں طور پر کم تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام افزائش نسل کو فروغ دیتا ہے یہاں تک کہ جب سماجی و اقتصادی حالات یکساں ہوں، تاکہ کوئی بھی اسے "غریب بمقابلہ امیر” کے تضاد میں نہ بدل سکے۔

ایک اور مغربی اسکالر فرانسیسی ڈیموگرافر فرانسوا ڈی بیل ایئر نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے وہ اسے وہ عرب مسلم دنیا کے "متضاد رجحانات” کہتی ہے۔ وہ بنیادی طور پر یہ بتاتی ہے کہ کس طرح، کرہ ارض کے بڑے حصوں کے برعکس، وہاں کی شرح افزائش یا تو مستحکم ہوتی ہے (جیسا کہ اردن کا معاملہ ہے) یا حقیقت میں یہ بڑھتی ہے (جیسا کہ مصر کا معاملہ ہے)۔

ایک روشن خیال "پیراڈوکس” جس کی وہ نشاندہی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ "شرح افزائش میں اضافہ زیادہ تر بہتر تعلیم یافتہ طبقے میں دیکھا جاتا ہے۔ مؤثر طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ مصر میں خواتین کا زیادہ "تعلیم یافتہ” ہونا ان کے زیادہ بچے پیدا کرنے سے بھی تعلق رکھتا ہے۔

یہ سب کچھ زوال پذیر مغرب کے لیے ایک اور اہم سبق ثابت ہونا چاہیے۔

RELATED: Islam Is the Solution America Needs

MuslimSkeptic Needs Your Support!
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments