
یہ مضمون مذہبی اصلاح کاروں کی سیریز کا حصہ ہے۔ روایتی اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت وغیرہ کی اصلاح (بدلنے) کی ماضی کی کوششوں کا مطالعہ کرکے، ہم عصری (موجودہ دور کے) پروگراموں کی اپنے دین کی اصلاح کرنے (بدلنے) کی کوششوں کے خلاف بہتر طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔ سیریز میں دیگر اندراجات یہاں پڑھیں۔
"ڈیساؤ کا شیطان موسی، باغیوں کا رہنما جس کے پاس سانپ کی سی چالاکی ہے۔ . . اس نے یہودیوں کے درمیان غیر ملکی فاحشہ کو لانا شروع کر دیا ہے تاکہ وہ ‘جھوٹے معبودوں کے پیچھے لگ کر بدکاری کریں’ ، یعنی کہ دوسرے معبودوں کی پرستش کریں”
مندرجہ بالا بیان ربی اکیوا یوسف سلیسنجر نے دیا تھا، جو ربی موسی سوفر (چاتم سوفر) کا شاگرد تھا، جسے یہودیت کے اندر جدید رجحانات کے خلاف آرتھوڈوکس مزاحمت کے باپوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔[1]
مغربی یورپ میں یہودیت جدیدیت اور سیکولرائزیشن کے عمل سے گزری۔ جدیدیت کی طرف اس تحریک کی قیادت موسی مینڈیلسن نے کی، جو تورات کے ایک کاتب کا بیٹا تھا۔ وہ 1729 میں ریاست انہالٹ ڈیساؤ (موجودہ جرمنی) کے شہر ڈیساؤ میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان غریب لیکن پڑھا لکھا تھا۔ اپنے بچپن میں، وہ ایک بیماری کا شکار ہوا جس کی وجہ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں گھماؤ پیدا ہو گیا۔[2]
کئی سال بعد، مینڈیلسن نے اپنی جسمانی کمزوری اور ریڑھ کی ہڈی کے گھماؤ کی وجہ میمونائیڈز کے مطالعہ میں لگائی گئی زبردست کوششوں کو قرار دیا۔
اس نے میرے جسم کو تکلیف دی اور میں اس کی وجہ سے کمزور ہو گیا۔ [3]
صرف ایک نوٹ کے طور پر، اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، میں اس مضمون کے ساتھ درج ذیل مضمون کو ملاکر پڑھنے کی انتہائی سفارش کرتا ہوں: یہودیت کی سیکولرائزیشن
مختصر سوانح عمری
مینڈلسن (1729-1786) نے تورات اور تلمود میں بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے ڈیساؤ کے ربی [4] ڈیوڈ فرانکل کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ جب فرانکل برلن کا ربی بن گیا تو چودہ سالہ مینڈیلسن نے اس کا فالو کیا اور برلن [6] میں فرانکل کے یشیوا [5] میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ برلن میں یورپی علم، حکمت اور فلسفے کا مطالعہ کرنے چلا گیا۔ اس نے زیادہ تر ان سب کا خود ہی مطالعہ کیا، حالانکہ اس کے پاس کچھ ٹیوٹر تھے۔ برلن میں اس نے جان لاک، گوٹ فرائیڈ وون لیبنز اور کرسچن وان وولف کی فکر کا مطالعہ کیا۔
موسی مینڈلسن ذہین تھا، اور اس نے اپنی کوششوں سے آئزک برن ہارڈ کے نام سے ایک یہودی تاجر کی توجہ مبذول کروائی۔ اسحاق برنارڈ نے مینڈلسن کو اپنے بچوں کے لیے ٹیوٹر مقرر کیا۔ مینڈیلسن نے پرشیا کے رہنما فریڈرک دی گریٹ [7] کی بھی توجہ مبذول کروائی تھی۔ مینڈیلسن کی تحریروں کے غیر یہودی قارئین نے اسے ‘یہودی سقراط’ کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ [8]
اہم نوٹ: موسی مینڈلسن کا نام موسی ہیمان تھا، لیکن اس نے برلن میں سیکولر علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک جرمن آواز والی کنیت اختیار کی۔ اس سے جرمن زندگی کی وہی افادیت ظاہر ہوتی ہے جو اس نے دوسرے یہودیوں کے لیے تلاش کی تھی۔[9]
اٹھارویں صدی میں برلن یہودیوں کے لیے دوستانہ جگہ نہیں تھی۔ مساوی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہ صرف دولت مند اور معاشی طور پر مفید یہودی تھے جنہیں پرشیا کے دارالحکومت میں رہنے کی اجازت تھی۔[10]
مینڈیلسن نے ایک مقابلے میں حصہ لیا جس کے لیے اس نے 1763 میں ایک فلسفیانہ مضمون لکھا، اور اس نے امانوئل کانٹ سے بھی برتری لے کر پرشین اکیڈمی آف آرٹس کا انعام حاصل کیا۔ اس کارنامے کے لیے، اسے شطزجوڈ، یعنی ایک پروٹیکٹڈ یہودی کا درجہ مل گیا۔
1750 کی دہائی میں، موسی مینڈیلسن نے فلسفی امانویل کانٹ اور گوتھولڈ لیسنگ کے ساتھ دوستی کی، جو ایک ڈرامہ نگار اور جرمنی میں روشن خیال رواداری کے حامی تھے۔ لیسنگ کی حوصلہ افزائی سے مینڈیلسن نے فلسفیانہ مضامین جرمن زبان میں شائع کرنا شروع کر دیے۔[11]
کام
مینڈیلسن نے فیڈو (اس کا سب سے مشہور کام) تصنیف کیا، جس کی بنیاد اس نے افلاطون کے کام پر رکھی۔ اس میں ‘روح کی لافانییت’ کے عنوان کا احاطہ کیا گیا تھا۔
مینڈیلسن نے یروشلم نامی ایک کتاب بھی لکھی۔ یہ 1783 میں شائع ہوئی۔ اس کام نے اسکے فلسفے اور فکر کی بنیاد رکھی۔ اس کام میں، (یروشلم نامی کتاب میں)، مینڈیلسن نے یہ بیان کرنے کے لیے بہت محنت کی کہ یہودیت جدیدیت سے ہم آہنگ ہے۔ اس نے رواداری کو فروغ دے کر چرچ اور ریاست کے درمیان علیحدگی پیدا کرنے کی بھی کوشش کی۔[12] مینڈیلسن نے یروشلم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہودیت اچھی شہریت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور یہ کہ روایتی یہودیت ایک عقلی مذہب ہے، جو روشن خیالی کی اقدار سے ہم آہنگ ہے۔[13] یہ سب کرتے ہوئے وہ ایک باعمل یہودی ہی رہا۔ اس نے روایتی یہودی طرز عمل سے ہٹنے کے خیال کو فروغ نہیں دیا۔ تاہم، اس کا خیال تھا کہ یہودیت کو روشن خیالی کے فلسفے سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔
یہ بالکل ویسے ہی ہے جو آج ہم اسلام کے ساتھ ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہی حرف بہ حرف ہماری آنکھوں کے سامنےہو رہا ہے۔ ماڈرنسٹ اسلام سے اپنی محبت کے بارے میں گن گاتے ہیں، اور اپنی روایات میں مداخلت کرنے کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم، درحقیقت یہ لوگ اپنے عمل میں مینڈیلسن جیسے لوگوں کی تقلید کرتے ہیں۔
کتاب یروشلم کو وہ حمایت حاصل نہیں ہوئی جس کی مینڈیلسن نے توقع کی تھی۔ میسکلم نے اسکے ہسکلہ کے اثبات پر اعتراض کیا اور آرتھوڈوکس طبقہ مذہبی تسلط کی برخاستگی کو قبول نہیں کر سکا۔[14]
روشن خیالی کیا ہے؟
"روشن خیالی کی اصطلاح اٹھارویں صدی کی مغربی ثقافت کے انسانی اقدار، مذہبی رواداری، انسانوں کےآزادی اور خوشی حاصل کرنے کے حقوق، اور انسانی معاشرے کی خود کو بہتر بنانے، بہتر انسانی طرز زندگی کو اپنانے کی صلاحیت پر اعتقاد کے ایک رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ وسطی اور مغربی یورپ میں روشن خیالی یکساں نہیں تھی۔ اس میں مختلف جگہوں پر مختلف ایجنڈے اور پروگرام شامل تھے۔ فرانسیسی روشن خیالی، مثال کے طور پر، چرچ کی سخت تنقید، اور بعض حلقوں میں سیاسی بغاوت کے ساتھ مخصوص تھی۔ دوسری طرف جرمن روشن خیالی نسبتاً اعتدال پسند تھی، جو عام طور پر پروٹسٹنٹ ازم یا کیتھولزم کی پاسداری کرتی تھی۔ بنیاد پرست سیاسی تنقید کو چھوڑ کر، جرمن تحریک نے تعلیم یافتہ شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی، اور اس کی تعداد میں اسٹیبلشمنٹ کے ایسے نمائندے شامل تھے جیسے حکام، ماہرین تعلیم، اساتذہ اور مولوی۔ تاہم، سبھی روشن خیالی کے منصوبے پر متحد تھے – جو کہ یہ تھا ؛ "عقلی استدلال کی طاقت اور فطری حقوق میں یقین، تعلیم، مناسب قوانین اور ذمہ دار حکمرانوں پر یقین کے ذریعے معاشرے کی اصلاح۔” اس منصوبے کو علم کے ذریعے نجات کا نام دیا جا سکتا ہے – وہ علم جس کا پھیلاؤ لوگوں کو زیادہ خوش، اپنی دنیا سے زیادہ باخبر، زیادہ خوش اخلاق اور خود مختار بنائے گا۔ "[15]
مندرجہ بالا پیراگراف میں بہت کچھ ہے جو جدیدیت اور لبرل ازم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
مینڈیلسن نے اس خیال کو آگے بڑھایا کہ یہودیت عقل کا مذہب ہے، لیکن اس کا وحی والا حصہ قانون ہے۔ مینڈیلسن کے اپنے الفاظ میں :
"وحی کسی بھی آدمی کو کسی ایسی چیز کے صحیح ہونے پر قائل نہیں کر سکتی جس کی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہو۔‘‘[16]
اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ یہودیت کے قوانین عقل سے اخذ کیے جا سکتے ہیں اور اس کے لیے وحی کی ضرورت نہیں تھی اس وجہ سے اس نے یہودیت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ عقلی حصہ تھا جس میں عقائد کا احاطہ کیا گیا تھا۔ دوسرا حصہ جو نازل ہوا وہ قانون کا احاطہ کرتا تھا۔ مینڈیلسن نے جو کچھ کیا اس سے اس خیال کی تبلیغ کرنا مقصود تھا کہ یہودیت کے عقائد کوئی بھی عام آدمی نکال سکتا ہے۔
مینڈیلسن نے اس خیال کو بھی آگے بڑھایا کہ یہودی قانون میں جبر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تاہم، یہ یہاں متصادم بات ہے ۔[17]
مینڈیلسن کے مطابق، بیت المقدس کی تباہی کے ساتھ ہی بائبل کی یہودی ریاست کی طاقت ختم ہو گئی۔ اسی وجہ سے، آج کے دور میں یہودیوں کو ملکی قانون کی پابندی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔[18]
لیکن اگر یہودی ملک کے قانون کو مانیں تو تورات کس مقصد کیلیے ہے؟
وہ کہتا ہے کہ تورات کی صرف انفرادی ایمان کے لحاظ سے پابندی کی جائے گی۔ مینڈیلسن کا استدلال ہے کہ تورات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ لاکھوں لوگ اس کے نزول کے گواہ تھے، اس لیے اسے اس وقت تک باقی رہنا ہے جب تک کہ خدا اسے عام طور پر منسوخ نہ کر دے۔ لہٰذا، وہ یہودیوں کو اپنے ایمان کی پیروی کرنے اور اپنی روایت پر قائم رہنے کی دعوت دیتا ہے ۔[19]
موسی مینڈیلسن کے طریقہ کار میں ایک بڑی خامی مذہب کو فلسفے کی عینک سے دیکھنا تھی۔ آج کے جدت پسندوں کے پاس کوئی فلسفہ نہیں ہے – جو کچھ بھی وہ عقل کے مطابق یا اپنی خواہشات کے مطابق محسوس کرتے ہیں اسے فلسفے کے طور پراپنا لیتے ہیں۔ وہ اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے خواہشات کے فلسفے کا استعمال کرتے ہیں، عمارت کو ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ یہ عمارت کبھی نہیں گرے گی بلکہ وہ خود اپنی مسلسل بدلتی ہوئی خواہشات کے بوجھ اور دباؤ میں گریں گے جو ان کے ذہنوں، دلوں اور روحوں پر ان کے اپنے خیالی پلائو سے مسلط ہیں۔
RELATED: Siding with Paganism: Judaism and Christianity Against Islam
مینڈیلسن کا موٹو
یہودیت کوئی نازل شدہ مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نازل شدہ قانون ہے۔[20]
یہ خیال، جو کہ مینڈیلسن کی طرف سے کئی بار دہرایا گیا، صرف یہودیوں کے عقائد کے نظام پر حملے کو تقویت دے رہا تھا۔ ظاہری طور پر یہ منطقی معلوم ہوتا تھا، لیکن اس نے یہودیوں سے انکا ایمان چھین لیا۔ بالکل اسی طرح آج ہم کئی مسلمان اور ہمدرد امام دیکھتے ہیں جو بڑی مہم چلاتے اور نعرے لگاتے ہیں لیکن اصل میں یہ امت مسلمہ سے ان کے عقیدے کو چھین رہے ہیں۔ یہ مسلمان خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اسلامی عقائد اور تعلیمات کی پاسداری کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ کسی اور چیز کی مکمل حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔
فلسفے کی محبت
مینڈیلسن نے فلسفے سے اپنی محبت کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے۔
آہ فلسفے، میرے جوانی میں تم میری پیاری بیوی کی طرح تھے جس نے میرے تمام مصائب میں مجھے تسلی دی، اور اب… میں تمہارے پاس جانے سے اس طرح ڈروں گا جیسے کوئی آدمی اپنے محبوب کے پاس جانے سے ڈرتا ہے جس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوتی ہیں… پھر بھی تمھارے لیے میری محبت مزید بڑھتی گئی اور میں اپنی خواہشات پر قابو نہیں پا سکا، اور تم سے محبت کی خاطر اکثر اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا رہا۔[21]
مسلمان یہودیوں کی پیروی کرتے ہوئے اب ایک مبہم اور پریشان کن صورت حال میں ہیں۔
مینڈیلسن کے بنیادی مقاصد میں سے ایک یہودیوں کو تعصب اور جبر سے آزاد کرانا تھا۔ آج "سٹیٹس کو” دیکھتے ہوئے ہم مسلمانوں کو بالکل اسی جال میں پھنسا ہوا پاتے ہیں۔ جبر اور لیبلنگ سے بچنے کے مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے، دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کو خوش کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وہ روایتی اسلامی تعلیمات سے بچنے اور اللہ تعالیٰ اور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایکویشن سے مکمل طور پر ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ماڈرنسٹ اور لبرل علماء اور امام ہر جگہ پیچھے کی طرف جھک جاتے ہیں۔ وہ قرآن کے پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ اپنے سامعین پر یہ تاثر دیں کہ اسلام جدیدیت سے بالکل مطابقت رکھتا ہے۔ موسی مینڈیلسن نے یہودیوں کے لیے سوِل حقوق حاصل کرنے کی اخواہش کی ، اور آج کے ماڈرنسٹ اور لبرلز اسی پیغام کو آگے بڑھا رہے ہیں!
مینڈیلسن نے ایک کتاب بھی شائع کی جس کا نام بیور ہے، جو کہ تورات کی وضاحت ہے۔ اس میں تورات کے متن کا عبرانی سے جرمن میں ترجمہ شامل تھا، لیکن جرمن حروف کا استعمال کر کے۔ اس نے یہ کام یہودیوں کو یدش ترک کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کیا۔ بیور بنیادی طور پر وہ متن تھا جس نے ہسکلہ تحریک کو جنم دیا۔ اس ترجمہ کا مقصد یہودیوں کیلیے ’ثقافت کی طرف پہلا قدم‘ فراہم کرنا تھا۔[22]
کسی کی زبان اور ثقافت کو ترک کرنا اپنی اقدار، اخلاقیات اور یہاں تک کہ عقائد کو ترک کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
مینڈیلسن نے کوہلیٹ مسر (اخلاقیات کا مبلغ) کے نام سے ایک ہفتہ وار رسالے کے لیے مضامین لکھے ( (یہ بتانے کیلیے کہ ) یہودی قدرتی علوم اور تورات کے مطالعہ کے ذریعے کیسے خدا کا سامنا اور تلاش کر سکتے ہیں۔ اس اشاعت کو بہت پذیرائی ملی، اگرچہ یہ مختصر مدت کی تھی۔
ہسکلہ
موسی مینڈیلسن ہسکلہ کا بانی تھا، جو اٹھارویں صدی کے دوران پیش آنے والے یہودی روشن خیالی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ یورپ میں ایک فکری تحریک تھی جو 1770 سے 1880 کی دہائی تک جاری رہی۔ لفظ ہسکلہ عبرانی لفظ سیخیل سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے ‘وجہ’ یا ‘عقل۔’ ہسکلہ تحریک نے یہودیوں کو سیکولر مضامین کا مطالعہ کرنے، یورپی زبانیں سیکھنے اور زراعت، دستکاری، فنون اور سائنس جیسے شعبوں میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔[23]
ہسکلہ نے مذہب کی بجائے حقیقت کے ماخذ کے طور پر عقل کی اہمیت کو ترجیح دینے پر توجہ دی۔ لہذا، اسی وجہ سے ہسکلہ یا روشن خیالی کے دور میں مذہب کا زوال ہوا۔[24]
روشن خیالی کا مقصد بنیادی طور پر مذہبی پیشواؤں کے اختیارات اور مقام کو گرانا تھا۔ اس نے انتخابی عمل کی راہ ہموار کی، جس میں یہودیت کے وہ پہلو جو جدید دور کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، آسانی سے فلٹر کیے جاتے ہیں۔ اس سے تورات کی اتھارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔[25]
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمدرد امام اور ماڈرنسٹ اسکالرز بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں، جو علمائے کرام کی اتھارٹی کو نقصان پہنچانے اور ان کلاسیکل نصوص، جو اسلامی قوانین کی تفصیل بیان کرتے ہیں، کو مسخ کرنے کیلیے اپنی ہر ممکن چال اور طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ روایت کی قیمت پر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے فقہ العقلیات (اقلیتوں کے لیے فقہ)، الفقہ الافترادی اور اسی طرح کے کئی ناموں کا استعمال کرتے ہیں۔
RELATED: The Maqasid of the Shari`ah: Nuanced Application or Genuine Abuse?
ہسکلہ کا آغاز گلیسیا (جرمنی، پولینڈ اور وسطی یورپ) سے ہوا اور بعد میں مشرقی یورپ تک پھیل گئی۔ ہسکلہ نے جن بڑی تبدیلیوں کو متاثر کیا ان میں سے ایک تعلیم کے شعبے میں تھی۔ میسکلم (ہسکالہ کے حامیوں) نے یہودی تعلیم میں تلمود کو اس کے مرکزی مقام سے ہٹانے کی کوشش کی۔ نصاب میں یہودی علوم کا مطالعہ کیا گیا، لیکن یہودیوں کو معاشرے میں ضم ہونے میں مدد دینے کے لیے سیکولر تعلیم پر زور دیا گیا۔[26]
پہلا ہسکلہ سکول 1778 میں برلن میں قائم ہوا۔ اس نے غریب بچوں کو مفت تعلیم دی اور نصاب میں جرمن، فرانسیسی، ریاضی، جغرافیہ، تاریخ، آرٹ، کچھ بائبل اسٹڈیز اور عبرانی شامل تھے۔ سکول کا آغاز 70 طلباء سے ہوا۔ ہسکلہ کے لیے دیگر اسکول ڈیساؤ اور فرینکفرٹ میں مین پر شروع ہوئے۔[27]
ہسکلہ نے لڑکیوں کی تعلیم میں بھی تبدیلیاں کیں۔ امیر گھرانوں کی بیٹیاں پرائیویٹ ٹیچرز سے پڑھتی تھیں۔ میسکلم نے بریسلاؤ، ڈیساؤ، کوینیگسبرگ اور ہیمبرگ میں غریب لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کیے۔ ہسکلہ کے کچھ اسکولوں میں یدش، دستکاری، فن اور گانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔[28]
ہسکلہ کے ساتھ، یدش اور اس کا استعمال ختم ہو گیا۔ عبرانی اور یورپی زبانوں کو زندہ کیا گیا۔ جرمن مصنفین نے دعویٰ کیا تھا کہ یہودی کاروباری لین دین میں یدش کو استعمال کر کے غیر یہودیوں کو دھوکہ دے رہے تھے، اور مینڈیلسن نے محسوس کیا کہ یدش ’مضحکہ خیز، غیر گرامی اور اخلاقی بدعنوانی کا سبب ہے۔‘ اصلاح کاروں نے یہودیوں کے اسکولوں سے یدش کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔[29]
ایک سوئس ماہر الہیات، جوہان کاسپر لاوٹر نے موسی مینڈیلسن کو ایک بحث کا چیلنج دیا تھا، تاکہ مؤخر الذکر کو وجہ نظر آئے اور عیسائیت قبول کر سکے۔ مینڈیلسن نے یہودیوں کے خوف سے مشغول نہ ہونے کو ترجیح دی ۔
ہسکلہ کے نتائج
ہسکلہ کے نتیجے میں یہودی اصلاحی تحریک کا عروج ہوا۔ اس تحریک کا مقصد یہودیت کو عصر حاضر کے یورپی معیارات کے قریب لانا تھا۔[30] ہمدرد امام بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوہرے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں، حکمران طبقے کے سامنے خود کو ’کنسرنڈ شہری‘ اور ’انسانیت کے محسن‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور اپنے فالورز کے سامنے وہ روایتی مسلمان کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے طور پر پیش کرنے کی بہت کوشش کرتے ہیں، لیکن جب انہیں روایتی مسلمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اپنے اصلی رنگ کو چھپانے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے۔ وہ بیک وقت LGBTQ کے حامی اور حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتے۔ وہ بیک وقت پیرینیالسٹ اور سچے مسلمان نہیں ہو سکتے۔
کافی دلچسپ بات یہ ہے کہ اصلاحی تحریک نے ان یہودیوں کے زور کو روکنے کی کوشش کی جو روایتی رسومات سے ہٹ کر عیسائیت اختیار کر چکے تھے۔ سبحان اللہ، یہ وہی ہے جس کا ہم اب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہمدرد امام اپنے لبرل اور جدیدیت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے روایتی مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی تعداد پر نظر رکھتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں، کیا انہیں اپنے گھناؤنے کام کے گھٹیا نتیجے کو دیکھ کر ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی؟
جرمنی میں، یہود عبادت گاہوں نے مرد و زن اختلاط کی اجازت دے دی، صیہون یا یروشلم کے حوالے ہٹا دیے گئے، اور دعاؤں کو بدل دیا گیا۔ قانون کی پابندی کا مرکز نظر مذہبی رسوم کی پابندی کی بجائے اخلاقی احکام پر منتقل ہو گیا۔[31]
اصلاحی تحریک[32] جو درحقیقت ایک لبرل تحریک تھی، چرچ کی گھنٹیوں کو یہود عبادت گاہ میں لے آئی۔ مسیحیت (مسیح کی آمد) کا عقیدہ آزادی/نجات کے مقصد کیلئے مسئلہ کن تھا ۔ لہٰذا، ان کے ادب میں سے حوالہ جات کو ہٹا دیا گیا۔ لفظ کنیسہ کو بدل کر مندر بنا دیا گیا ۔ قدامت پسند تحریک[33] ایک اور لبرل تحریک تھی جس نے یہودیت کو درپیش تبدیلیوں سے تیز رفتاری سے نمٹنے کی کوشش کی۔ اس تحریک نے یہودی طرز عمل کو تبدیل کرنے کے پہلو سے اتفاق کیا، لیکن اس نے اسے تبدیل کرنے کے طریقے سے اختلاف کیا۔
اس سب کی آرتھوڈوکس (بنیاد پرست) کیمپ نے مخالفت کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس نے یہودیت کے وجود کو چیلنج کیا ہے اور اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا جانا چاہیے۔[34]
ہسکلہ بڑی تعداد میں یہودیوں کے ضم ہونے کے ساتھ ختم ہوا۔ آزادی کی جدوجہد نے ہجرت اور صیہونیت کو جنم دیا۔[35]
ناکامی
مینڈیلسن کیلیے بڑی مایوسی کن بات یہ تھی کہ، یروشلم جو کہ اس کا سب سے اہم فلسفیانہ مقالہ تھا، یہودی معاشرے پر کچھ خاص اثرانداز نہیں ہوا۔ اوپر سے ربیوں (یہود علماء) اور مسکلیوں نے اس پر بہت کم توجہ دی۔[36]
مجموعی طور پر، موسٰی مینڈیلسن یہودیت کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی اپنی کوشش میں ناکام رہا۔ اس کی تصدیق یہودی آج بھی کرتے ہیں۔ اس کے شاگردوں نے عیسائیت اختیار کر لی۔ اس کے تقریباً تمام بچوں نے بھی عیسائیت اختیار کر لی۔ اس کی صرف ایک بیٹی اور ایک بیٹا یہودی رہے لیکن ان کے بچوں نے بھی بعد میں عیسائیت اختیار کر لی۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک واضح سبق ہے جو اسلام کو جدید بنانا چاہتے ہیں۔ کتاب اللہ اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ سے کھیلنے کی کوشش ضرور بالضرور ناکام ہی ہو گی۔
ہسکلہ اور مسکلیم (ہسکلہ کے کارکن) جنہوں نے اسے اپنایا، وہ روایتی یہودیت کے دلدل کے طور پر جانے گئے۔ بعد میں، مسکلیم روایتی یہودیت سے بیزار ہو گئے اور اس سے دور ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے ضم ہونا شروع کر دیا; عبادت گاہ کی خدمات میں مرد اور خواتین کی مخلوط نشستیں ہوگئیں؛ اسرائیل واپسی کے لیے دعائیں خدمات سے نکال دی گئیں۔ یہودی اسکولوں نے تورات کے مطالعے کی بجاۓ سیکولر علوم پر زور دینا شروع کر دیا۔ وغیرہ
اگرچہ یہودیوں نے ضم کرنے کی یہ تمام کوششیں کیں، انیسویں صدی کی پہلی چند دہائیوں کے دوران جرمنی میں یہودی مخالف لٹریچر کو عروج حاصل ہوا۔ 1819 میں سڑکوں پر ہونے والے فسادات میں یہودی مارے گئے۔ تب یہودیوں نے محسوس کیا کہ سماجی قبولیت کا واحد راستہ عیسائیت میں تبدیلی ہے۔
RELATED: How “Sexual Revolution” Gave Rise to Nazism
جدید یہودیت کی تمام شکلیں (اصلاحی ، قدامت پسند، اور جدید آرتھوڈوکس) موسی مینڈیلسن کی سوچ سے متاثر ہوئی ہیں۔ یہودی خوشی سے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ تاہم، ان سب سے جو حیرت انگیز سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے:
روایتی یہودی پادری یہودیت کی جدید کرنے کے خلاف کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟
آرتھوڈوکس یہودی شروع سے ہی ہسکلہ کے خلاف تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس (جدیدیت) نے ربیانہ آرتھوڈوکس اور تعلیم میں تلمود کے کردار کو چیلنج کیا۔ تاہم، وہ بھی اس سے متاثر ہوئے اور جلد ہی ایسے اسکول کھول دیے جو یہودی اور عمومی علوم دونوں پڑھاتے تھے۔[37] ہم تاریخ کے اس حصے سے سیکھتے ہیں کہ جو مسلمان اس خاص رجحان کی پیروی کرتے ہیں (مذہب کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے کا رجحان)، یعنی قرآن کو مرکزِ تعلیم رکھنے سے دور ہو جاتے ہیں، وہ مکمل طور پر جدیدیت کا شکار ہو جائیں گے۔[38]
ہسکلہ اور آزادی
‘Emancipation’ ایک اصطلاح تھی جسے یہودیوں نے امریکی ثقافت سے مستعار لیا تھا۔[39] یہودی اس کا استعمال یورپ میں یہودیوں کو مساوی حقوق کے لیے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی بنیادی طور پر یورپ میں اجنبی شہری کے طور پر رہ رہے تھے اور ٹیکس اور دیگر قسم کی ذلت کا شکار تھے۔ یہود کیلئے اس قسم کی ‘ذلت’ قرآن مجید میں بھی بیان کی گئی ہے:
وہ جہاں کہیں پائے جائیں ، ان پر ذلت[by Allāh] کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے ، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں ، اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے ، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔ ( نیز ) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے ، اور [habitually] ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے[40]
یہودی اس ریاست سے خود کو آزاد کرنا چاہتے تھے، اور وہ سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ یہ ایک نیک عمل معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بھاگنے کی کوشش تھی جو انہوں نے خود (اپنے عمال کے بدلے) کمایا تھا ۔ یہ سب دیکھنے کے باوجود آج مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ ہوئے ذلت و رسوائی کما رہے ہیں۔ 1791 میں، فرانسیسیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ یہودی اب فرانسیسی کہلانے کے لیے موزوں ہیں اور انہیں مساوی حقوق دیے جائیں گے۔[41] ایک دہائی کے اندر پہلے ہی یہ شکایات سامنے آ رہی تھیں کہ یہودی اب کس طرح غیر یہودیوں پر ظلم کرنے کے لیے اپنے حقوق کا استحصال کر رہے ہیں۔ نپولین نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک سنہڈرین کو بلایا۔[42] بنیادی طور پر یہ یہودیوں کے عظیم کورٹ (عدالت) کو قائم کرنے کی کوشش تھی جو صدیوں سے ناپید تھی۔
مغربی یورپ میں، یہودیوں نے ہسکلہ سے سمجھا کہ انہیں مساوی حقوق تب ہی حاصل ہوں گے اگر ’’وہ مناسب طریقے سے کام کریں۔‘‘ مشرق کے مقابلے میں، ہسکلہ کو مغرب میں بہت مختلف انداز میں برتا گیا۔ ہسکلہ کے مشرقی دائرے میں سوشلزم یا صیہونیت کے ذریعے انقلاب، محدود حمایت، یدش، بولی جانے والی روسی اور عبرانی زبان میں بہتری شامل ہے۔ جبکہ ہسکلہ کے مغربی دائرے میں آزادی، ہم آہنگی، جرمن سیکھنا، لبرل سپورٹ اور فرقہ واریت شامل ہے۔
اس تحریر سے جو سبق حاصل کرنا ہے وہ یہ ہے کہ موسیٰ مینڈیلسن نے عوامی حلقوں میں جدیدیت کے نظریات کا پودا لگایا، جو بعد میں جڑ پکڑ کر پھوٹ پڑا۔ یہی حال آج کے ماڈرنسٹ اور لبرلز کا ہے۔ وہ اکثر مسلم لبادے میں ہوتے ہیں، لیکن ماڈرنسٹ اور لبرل نظریے کی تبلیغ کے علاوہ کچھ نہیں کرتے، جس سے گندی اور خراب، بوسیدہ گوشت کی بدبو آتی ہے۔
مینڈیلسن کے استدلال کا خلاصہ یہودیت کے لبرلائزیشن کرنا، اسے یونیورسل ریشنلزم کی بنیاد پر استوار کرتے ہوئے بیک وقت مذہب کے جبری اختیار کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا تھا۔
اپنے آخری ایام میں بھی، مینڈیلسن کو یہود مخالف تعصب کا شیطان تنگ کرتا تھا۔ اپنی موت سے تقریباً ڈھائی ماہ قبل اپنے آخری خطوں میں سے ایک میں، اس نے مایوس کن لہجے میں لکھا:
"میری قوم کے خلاف تعصبات کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ(مشکل ہے کہ) ان کا آسانی سے خاتمہ کیا جا سکے "[43]
اگر اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو صرف یہ کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور ان کی رسوائی دور نہیں ہو سکتی یا دھل نہیں ہوسکتی، خواہ اس کے دائرہ اثر سے ہٹنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے۔ مینڈیلسن کی زندگی کے اختتام پر سامنے آنے والی چیزوں میں سے ایک یہ تھی کہ اس کا بہت اچھا دوست، لیسنگ، جس کے ساتھ وہ اکثر بات چیت کرتا تھا، دراصل ایک ملحد تھا۔ اس کا تعلق محمد عبدو سے ہے، جس نے فارسی فری میسن افغانی سے دوستی کی۔
RELATED: Muhammad ‘Abduh: Leading 19th Century Modernist Reformer
اللہ تعالیٰ ہم سب کو گمراہ لوگوں کے نقش قدم پر چلنے سے بچائے۔ آمین
حاشیے
ماخذ
- The Biography and Hermeneutics of Moses Mendelssohn, Josias De La Cruz Haywood
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, Yale University Press, 2010
- https://www.britannica.com/biography/Moses-Mendelssohn
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/
- https://youtu.be/zt78_Rwgbro
- https://youtu.be/WZyjy2AHMpM
- https://youtu.be/99J0Yvbs19w
- https://youtu.be/n9XH0B80liQ
- https://henryabramson.com/2014/03/04/the-haskalah-essential-lectures-in-jewish-history-dr-henry-abramson/
فُٹ نوٹس :
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, p.10 ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/moses-mendelssohn ↑
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, p.27 ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.chabad.org/library/article_cdo/aid/4407857/jewish/What-Is-a-Yeshiva.htm ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/moses-mendelssohn ↑
- Today this is part of Germany, Poland, Lithuania, Russia, Denmark, Czech Republic, Belgium ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.britannica.com/biography/Moses-Mendelssohn ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/moses-mendelssohn ↑
- Moses Mendelssohn got these ideas from John Locke [1632 – 1704] ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, pp. 12-13 ↑
- The Biography and Hermeneutics of Moses Mendelssohn, Josias De La Cruz Haywood p.7 ↑
- https://www.thetorah.com/article/obliterating-cherem ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, p.205 ↑
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, p.30 ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/moses-mendelssohn ↑
- https://henryabramson.com/2014/03/04/the-haskalah-essential-lectures-in-jewish-history-dr-henry-abramson/ ↑
- https://www.myjewishlearning.com/article/moses-mendelssohn/ ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/moses-mendelssohn ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/moses-mendelssohn ↑
- Ibid ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-haskalah ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-haskalah ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-haskalah ↑
- Associated with Abraham Geiger ↑
- Associated with Zechariah Frankel ↑
- https://henryabramson.com/2014/03/04/the-haskalah-essential-lectures-in-jewish-history-dr-henry-abramson/ ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-haskalah ↑
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, p.187 ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-haskalah ↑
- https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-haskalah ↑
- https://www.britannica.com/event/Emancipation-Proclamation ↑
- Sūrah āl-‘Imrān: 112 ↑
- https://henryabramson.com/2014/03/04/the-haskalah-essential-lectures-in-jewish-history-dr-henry-abramson/ ↑
- https://www.jewishhistory.org/napoleons-sanhedrin/ ↑
- Mendelssohn: Philosopher of the Enlightenment, Shmuel Feiner, p.190 ↑
مفتی عبداللہ کو ٹوئٹر پر فالو کریں: MuftiAMoolla@