عمل کے بغیر علم؛ مسلمانوں کے لیے تباہ کن

یہ میری تجوید کی کتاب کا ایک صفحہ ہے:

یہ ایک حرف کے علیحده اور منفرد حالت میں تلفظ کی نسبتاََ آسانی ،بمقابلہ اکٹھے حروف کے ایک لفظ کی شکل میں تلفظ میں نسبتاََ دشواری پرگفتگو کرتا ہے۔ کسی بھی حرف کا تلفظ کرنا آسان ہے جب وہ دوسرے پڑوسی حروف کے اثر سے الگ ہو؛ جس صورت میں، اس حرف کو اس کے مکمل حقوق اور اس کے ہلکے یا بھاری پن، کمزوری یا طاقت کی تمام صفات دینا آسان ہے۔

لیکن تجوید میں مہارت کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب ایک لفظ میں ایک ساتھ جڑے ہوئے متعدد حروف کا تلفظ کیا جائے، خاص طور پر جب وہ اپنی صفات میں بالکل مختلف ہوں۔ ایک حرف جو بھاری ہے اس کے بعد ایک ہلکا حرف ہو سکتا ہے جسے پھرغیرضروری بھاری پن دے دیا جائے۔ یا ایک حرف جو کمزور ہے اپنے بعد آنے والے مضبوط حرف کی وجہ سے نامناسب طور پر چھپ جائے۔ جب مختلف حروف کو ایک ساتھ پھینک دیا جاتا ہے، اگر آپ محتاط اور مستعد نہیں ہیں، تو چیزیں گڑبڑ ہوسکتی ہیں۔

یہ عبارت اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے جاری رہتی ہے کہ تجوید کا مقصد صرف علمی، یا اصل اطلاق سے الگ نہیں ہے:

"جان لیں کہ تجوید کے اصول آپ کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کے دوران استعمال سے الگ تھلگ سیکھنے اور حفظ کرنے کے لیے وضع نہیں کیے گئے۔ بلکہ، تجوید کے اصولوں کو سیکھنا ایک ایسا ذریعہ ہے جسے آپ تلاوت کرتے وقت استعمال کرتے ہیں اور براہ راست لاگو کرتے ہیں۔ جو شخص تلاوت کرتے وقت ان اصولوں کو عملی طور پر لاگو نہیں کرتا، اس کے لیے اصولِ تجوید کے ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی ممتحن کی طرف سے اس کے سامنے کیے گئے ہر سوال کا صحیح جواب دینے میں کامیاب ہونے کا۔” [such][tajwīd-related]

جو کچھ آپ جانتے ہیں اسے لاگو کرنے کا یہ تصور نہ صرف تجوید کے لیے درست ہے بلکہ دین سے متعلق تمام علوم اور عمومی طور پر اسلام کے علم کے لیے درست ہے۔

متعلقہ مضامین: علم بمقابلہ علم کی ظاہری شکل: فرق جانیں!

کسی شخص کے فقہ یا عقیدہ یا قرآن یا حدیث کے علم کا کیا فائدہ اگر اس علم کو حقیقی زندگی کے حالات پر لاگو نہ کیا جائے؟

اگر ہم جانتے ہیں کہ بعض جنسی اعمال حرام ہیں، تو اس علم کیا فائدہ اگر ہم لوگوں کے اس طرح کے حرام جنسی عمل میں ملوث ہونے کے حق کی "تائید اور وکالت” کریں؟

اگر ہم جانتے ہیں کہ شرک حرام ہے تو اس علم کا کیا فائدہ اگر ہم کرسمس جیسے تہوار منائیں یا منانے والوں کو مبارکباد پیش کریں؟

اگر ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی قابل قبول دین ہے، تو اس علم کا کیا فائدہ اگر ہم اُس احساسِ خیر اور انسانیت پرستی کو قبول کر لیں جو آج کل بہت مقبول ہے؟

اگر ہم جانتے ہیں کہ زنا کبیرہ گناہ ہے، تو اس علم سے کیا فائدہ اگر ہم اجتماعی طور پر شادی کو اتنا مشکل بنا دیں، اور رکاوٹوں کو اس قدر ناقابل تسخیر بنا دیں کہ لوگوں کے لیے شادی کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے؟

ایک ایسے شخص کے لیے جو روزمرہ کی زندگی اور حقیقی حالات میں اس طرح کے اصولوں کو عملی طور پر لاگو نہیں کرتا، اس کے لیے اسلام کے احکام کا علم رکھنے یا امتحان کے دوران اسلامی سوالات کے صحیح جواب دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

ایمان کا اصل امتحان صرف ان اصولوں کو نظریاتی طور پر حقیقت سے الگ تھلگ تجریدی معنوں میں جاننا نہیں؛ اصل امتحان تب آتا ہے جب ہمیں ان اصولوں کو حقیقی زندگی میں اس کے تمام متضاد متغیرات کے ساتھ لاگو کرنا پڑتا ہے، اور ان لوگوں کے درمیان جو مختلف طریقے سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔

حقیقی زندگی کے مسائل اور اصولوں کے حقیقی اطلاق کا سامنا کرتے ہوئے، کیا ہم (مسلمان ہونے کے ناطے) بیرونی دباؤ کے سامنے جھک جائیں گے اور "ساتھ رہنے کے لیے ساتھ چلیں گے”، یا کیا ہم جُرأت کریں گے اور اصولوں کو جھکائے بغیر مکمل سچائی کا اعلان کریں گے؟

متعلقہ مضامین: ایل۔جی۔بی۔ٹی کے حامی مسلمان؟ یقین اور براؤن ایل۔جی۔بی۔ٹی کی تائید اور وکالت کو فروغ دیتے ہیں۔

MuslimSkeptic Needs Your Support!
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments